پیر ‘ 14 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 25 فروری2013 ئ

 سیاسی کبوتر وہیں جائیگا جہاں آئندہ ” دانہ دنکا“ ملنے کی امید ہوگی:شیخ رشید شیخ جی کبوتروں نے تواُڑنا شروع کردیا ہے،انہیں دانہ دنکا ملنے کی امید لگ چکی ہے، آپ اڈاری کب مار رہے ہیں، کسی شاخ پہ آپ بھی بیٹھ جائیں کیونکہ تانگے پر اکیلی سواری بیٹھی ہو تو پھر مسافر بھرے تانگے کے پائیدان پر لٹکنے میں ہی کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ جب تک اکیلی سواری والا تانگا بھرے گا اس وقت تک تو آپ منزل پہ پہنچ جائیں گے لہٰذا کوچوان اکیلے ہی تانگے کو چلاتا رہے گا ۔اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ کسی چلتی سیاسی گاڑی پر بیٹھ جائیں ۔پیپلز پارٹی نواز لیگ،تحریک انصاف یا چوہدری پارٹی کے ساتھ اپنی تانگہ پارٹی کو لگا لیں تاکہ کسی منزل مقصود تک پہنچ پائے ،ورنہ تو لال حویلی میں جس طرح اُلو بول رہے ہیں ایسے آئندہ بھی بولتے رہیں گے کچھ لوگ جو دانہ چگنے کے لالچ میںاڈارئیاں ماررہے ہیں وہ عنقریب عوامی شکنجے میں پھنسنے والے ہیں۔عوامی جال اس قدر سخت ہے کہ اس میں پھنسا ہوا پرندہ کبھی بھی ٹھیک ہوکر اڑ نہیں سکتا،شیخ صاحب بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر اب تجربہ کار بن چکے ہیں اس لئے وہ پنڈی والوںسے بیوفائی کرنے پر تیار نہیں کیونکہ جب پنڈی والے بیوفائی کرتے ہیںتو پھر شیخ جی سگار پی پی کر آنسو پیتے ہیں۔٭....٭....٭....٭....٭....٭101سالہ فوجا سنگھ اب بھی ایتھلیٹ میں نمبرون۔101سالہ بابا اب بھی دوڑ میں نمبرون ہے۔پرانے زمانے کی خوراک اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔آجکل کا نوجوان تو 40سال کی عمر میں بوڑھا ہوجاتا ہے۔دونمبر خوراک کے ساتھ ساتھ آجکل تو دوائیاں بھی دو نمبر ہی ملتی ہیں۔فوجا سنگھ 27ہزار سے زائد افراد کے ساتھ میراتھن میں حصہ لیکر ریٹائر منٹ لینے کے متمنی ہیں۔ بابا سنگھ دس کلو میٹر کی آخری دوڑ ہانگ کانگ میں حصہ لیکر ہی آرام کریں گے۔ہمارے نوجوانوں کو اور کچھ نہیں تو کم از کم اس بابے پر رشک ہی کرلیناچاہئے ہم تو صبح کی سیر بھی نہیں کرتے ،گراﺅنڈ کا ایک چکر لگائیں تو جوڑوں میں درد شروع ہوجاتا ہے،بس اسی درد کو لیکر ہم پریشان رہتے ہیں،ڈبل روٹی کھا کر درد تو ہوگا۔دیہاتی لوگ طاقتور ہوتے تھے لیکن آجکل انہوں نے بھی دودھ پینے کی بجائے بیچنا شروع کردیا ہے۔دیسی گھی میں بھی ڈالڈے کی ملاوٹ ہوتی ہے کچھ مائیاں تو مدھانی ڈالنے سے قبل دودھ میں ڈالڈا گھی ڈال کر اسے دیسی کا رنگ چڑ ھانے کی کوشش کرتی ہیں۔پرانے زمانے کے لوگ اس لئے طاقتور اور تندرست ہوتے تھے کہ اس وقت ایک خوراک اچھی ہوتی تھی دوسرا انٹرنیٹ اور کیبل اور فیس بک جیسے تفریحی فراہم کرنے والے ذرائع ایجاد نہیں ہوئے تھے آج کے نوجوان کو فوجا سنگھ کی جرا¿ت کو دیکھ کر اپنی جوانی پر رحم کھاناچاہئے اور ورزش کو یقینی بنا کر اپنی صحت کو برقرار رکھناچاہئے۔٭....٭....٭....٭....٭ پاکستانی بیٹنگ اور باﺅلنگ دونوں فیل ہوگئیں۔ کرکٹ ٹیم کی سربراہی اگر کسی بوڑھے اورسست الوجود کے حوالے کریں گے تو پھر یہی حشر ہونا ہے۔جنوبی افریقہ نے پاکستانی باﺅلروں کو بڑی بے رحمی سے مارا،ایسے تو کمہار گدھوں کو بھی نہیں مارتا۔افریقین باﺅلر ایبٹ نے تو بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچایا ہے۔مصباح الحق یونس خان چلے کارتوس ہیں انکی ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی لیکن بورڈ حکام سفارشیوں کو ٹیم میں شامل کرکے ملکی نام کی قدر کم کر رہے ہیں۔بوڑھے کھلاڑیوں کو اب خود ہی کرکٹ سے کنارہ کشی کرلینی چاہئے ورنہ دھکے دیکر نکالنا پڑے گا۔آجکل کرکٹ کے شائقین گندے انڈوں اور خراب ٹماٹروں کی ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں چلے اور ہارے ہوئے کارتوس جس بھی راستے سے آئیں گے ان کا استقبال خوب کیاجائیگا۔ ایک آدھ میچ ہار جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن ہمارے ہیرو تو پوری سیریز ہی ہار چکے ہیں۔ کرکٹ بورڈ اپنا قبلہ درست کرے ورنہ قوم جلد ہی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے گی اور پھر وہ وقت نہ آجائے کہ سب کی چھٹی ہوجائے۔مصباح الحق اور یونس خان کو ملک وقوم پر رحم کرناچاہئے اور خود ہی اب ریٹائرمنٹ لے لینی چاہئے۔چیئر مین کرکٹ بورڈ کو اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنی چاہئے۔سفارشیوں کے نام قوم کے سامنے لانے چاہئیں۔قومی کرکٹ ٹیم سے تو اچھی ہمارے معذوروں کی ٹیم ہے جو معذور ہونے کے باوجود میچ جیت لیتی ہے،نابینا کرکٹ ٹیم ان بیناﺅں سے اچھی ہے یہ تو ہٹے کٹے دیکھنے کے باوجود اندھے نظر آتے ہیں۔٭....٭....٭....٭....٭ بانسری پر ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار کی دھن بجانے والا با صلاحیت گھوڑا۔ گھوڑا تو ویسے ہی وفادار جانور ہے۔ڈھول کی تھاپ پر اس کا ناچنا دلوں کو بھلا لگتا ہے۔ پہلے دور میں مداری بندروں اور ریچھوں کو مار مار کر سدھارتے تھے،پھر انہیں عوام کے سامنے لا کر اپنے فن کی داد وصول کرتے تھے۔اب بھی یہ کام جاری ہے لیکن روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اب انسانوں کو سدھارنا شروع کردیا ہے۔آپ کسی بھی چوک چوراہے پر کھڑے ہوجائیں درجن بھر کے قریب معذور افراد پروانوں کی طرح آپ پر امڈ آئیں گے۔کچھ پورے معذور ہوتے ہیں تو کچھ جانوروں کی طرح سدھارے ہوئے ہوتے ہیں۔ رات ہونے تک ایک مزدورجتنے پیسے لیکر گھروں کو چلے جاتے ہیں،آجکل تو چوکوں پر بھی ٹھیکیداری نظام شروع ہوچکا ہے،دیہاتوں سے لوگوں کو اجرت پر شہروں میں لاکر مصنوعی معذور بھی بنا لیا جاتا ہے۔بہرحال ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار کی دھن بجانے والے گھوڑے کے مالک کو مبارک ہو کہ اب اس کے امیر ہونے کے دن شروع ہوچکے ہیں۔میلے اور سرکس پر خوب پیسہ ملا کرے گا۔ویسے چڑیا گھر میں رکھ کر گھوڑے پر ٹکٹ بھی لگائی جاسکتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اسے مزید بھی فن سکھائے جاسکتے ہیں۔گھوڑے کو الیکشن میں بکنے والے گھوڑوں جیسا نہیں بنناچاہئے۔مالک سے وفاداری نبھا کر فن کا خوب مظاہرہ کرناچاہئے۔٭....٭........٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...