مرحوم حمید نظامی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کا اصل مطلب ان اقدار و افکار سے وابستگی کا اظہار ہے جو پاکستان کی تخلیق کا باعث بنے اور جن کی محافظت میں حمید نظامی نے اپنی صحافتی زندگی کا لمحہ لمحہ استعمال کیا۔ آج کل آزادی صحافت کے فقدان کا بہت رونا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک قانون کا تعلق ہے پاکستان میں شروع سے ہی دل گرفتگی کا سامان موجود رہا ہے۔
جتنے صحافیوں کو نام نہاد پارلیمانی دور میں قید و بندد کے مصائب اٹھانے پڑے، اب صحافتی ادباء اسکے پاسنگ بھی نہیں لیکن آزادی صحافت سے شیفتگی قانونی پابندیوں سے ماورا شے ہے۔ جس اہل قلم کا قلب و ذہن کسی اٹل عقیدے اور ایمان سے معمور ہو گیا اس کیلئے پابندی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ تنگی ٔ حریت میں بھی اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کی بضاعت پیدا کریگا۔ وہ اپنے مطلب کو بیان کرنے کیلئے ایسی زبان اختراع کریگا جو قانون کی گرفت سے بالا رہے گی۔ عقیدے کی پختگی اور ادائیگی مطلب پر قدرت ہی آزادی صحافت کی حقیقی ضمانت ہیں۔ اس اعتبار سے حمید نظامی بہت پائے کے صحافی تھے۔ انہیں اپنا حال دل کہنے میں کبھی ضیق محسوس نہیں ہوئی۔
گو پاکستان کی تخلیق کا محرک اعظم مسلمانان ِ ہند کا اسلام سے تعلق خاطر تھا لیکن اسکے بروئے کار آنے میں کئی قباحتیں پیش آئیں۔ ایک طرف اسلام کے ایسے علمبردار بلکہ اجارہ دار اٹھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ تو کیا یا اس کی مخاصمت و مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، دوسری طرف ایسے دانشوروں کا طائفہ اٹھا جو ترقی پسندی کے پردے میں اسلامی اقدار کی تنقیص کی مہم سر کرنا چاہتے تھے۔ حمید نظامی کی ہر دو طبقوں سے جنگ تھی۔
ایسی جماعتوں کے موقف کا دو ٹوک یہ جواب دیا تھا کہ جن لوگوں کو تحریک پاکستان کا ادراک حاصل نہیں ہوا، وہ اس ملک کی قیادت کے اہل نہیں۔ کسی اور نظریاتی ملک میں اس قسم کے عناصر کو شہریت تک نہ ملتی۔ اگر پاکستان نے ان حضرات کے وجود کو گوارہ کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انہیں سر پر بھی بٹھانے کو تیار ہے۔
پاکستان کی اقدار کی اس طور پر حفاظت حمید نظامی کی صحافت کا ایک پہلو تھا۔انکی صحافتی زندگی کا دوسرا پہلو مادیت اور دہریت کی مخالفت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ غضب خدا کا ملک تو ہے اسلام کے نام پر اور اس کی فضا پر چھائے اعلائے کلمۃ اللہ کے علاوہ کوئی اور کلمہ؟
حمید نظامی کو اقتصادی مساوات کے اصول سے کوئی بیر نہ تھا۔ انہیں غربا سے عملی طور پر لگائو تھا اور وہ ان کی مدد کیلئے درمے، قلمے، سخنے خدمت کرتے رہتے تھے۔ لیکن قومی غربت کے مداوے کی تلاش اور ملکی دولت کی تقسیم کا مساویانہ منصوبہ ایک چیز تھا اور خدا کے انکار کے سلسلہ افکار کی تقویت بالکل دوسری، پاکستان میں کمیونزم کی شکل بھی کافی بھونڈی ہے۔ یہاں کوئی باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی کبھی قائم ہی نہیں ہوئی تھی۔
حمید نظامی نے بائیں بازو کے لوگوں کی مخالفت اور بیخ کنی کو خاص طور پر اپنی صحافتی زندگی کا اولین مشن بنایا اور ساری عمر اس جدوجہد میں گزاری۔ انکی وفات کے بعد اس جہاد کے نقطہ نگاہ سے قومی فضا تہی ہو چکی ہے حالانکہ آج پہلے سے بھی زیادہ فکری تگ و تاز کی ضرورت ہے کیونکہ روس اور چین سے ہمارے تعلقات خوشگوار ہو رہے ہیں۔ مادیت کی تبلیغ کیلئے راستے ہموار ہو رہے ہیں۔
چین اور روس سے بہتر تعلقات کی داغ بیل ڈالنا اشد ضروری ہے۔ بین الاقوامی امن کا تقاضا ہے کہ پاکستان ہمہ جہتی تعلقات قائم کرے لیکن کمیونسٹ اور مغربی ممالک سے سیاسی رشتہ اور ملک کے باشندوں کے اعتقادات کا مسئلہ بالکل مختلف امور ہیں اگر چین اور روس ہم سے دوستی کی بنا پر مسلمان نہیں ہو جاتے تو ہم پر بھی اپنی اسلامی اقدار کی محافظت کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے حمید نظامی کی وفات سے پاکستانی فکر کو سخت صدمہ پہنچا ہے اور اس نقصان عظیم کی تلافی ہوتی نظر نہیں آتی۔