وفاقی حکومت نے طالبان سے دوبارہ مذاکرات کے لئے غیر مشروط جنگ بندی کی شرط عائد کر دی

اسلام آباد (آن لائن+ ثنا نیوز) وفاقی حکومت نے   طالبان  سے دوبارہ مذاکرات  کے لئے  غیرمشروط جنگ بندی کی شرط  عائد کر دی ہے جس کے بعد  حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے امکانات اس وقت تک معدوم رہیں گے جب تک طالبان کے مختلف گروپوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملے بند نہیں کئے جاتے۔ وفاقی حکومت کے انتہائی ذمہ دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق، مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم خان کو آئندہ 24گھنٹوں کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے غیراعلانیہ رابطوں کے ذریعے یہ باور کرا دیا جائے گا کہ انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کی جانب سے کارروائیوں کے جواب میں کسی نرمی کی ہرگز توقع نہ رکھی جائے۔ تحریک طالبان کی سیاسی شوریٰ اگر جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر دوبارہ بیٹھنے میں سنجیدہ ہے تو انہیں امن دشمن سرگرمیوں میں ملوث گروپوں سے اعلان لاتعلقی کرتے ہوئے غیرمشروط جنگ بندی کا اعلان کرنا ہوگا۔ اگر طالبان کے بعض گروپ اور ان کے رہنما مذاکرات  سے قبل اپنی امن دشمن صلاحیت کے اظہار میں دلچسپی رکھتے ہیں تو حکومت بھی ان کی سرکوبی کیلئے اپنی صلاحیت کے  اظہار کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ یہ بھی واضح کر دیا جائے گا کہ حالیہ  بعض انتہائی بہیمانہ کارروائیوں کے بعد پاکستان بھر میں رائے عامہ مذاکرات کے بجائے آپریشن کرنے کے حق میں ہموار ہوئی ہے اور عسکریت پسندوں کو  نیست ونابود کرنے سے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں، اب اگر طالبان دوبارہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی جانب سے بلامشروط جنگ بندی کے پیشگی  اعلان  پر منحصر ہے۔ کالعدم طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ امن مذاکرات کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا، کوشش کر رہے ہیں کہ معاملات جلد بہتری کی طرف آجائیں۔ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے غیررسمی گفتگو میں پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم سے فی الحال کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ نہیں جانتے کہ دونوں کمیٹیوں کا اجلاس کب ہوگا۔ تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ کوشش ہے کہ صورت حال جلد بہتر ہوجائے۔ پروفیسر ابراہیم نے اعتراف کیا کہ ایف سی اہلکاروں کی شہادت سے معاملات خراب ہوئے، اہلکاروں کی شہادت پرانا واقعہ تھا جسے سازشی عناصر نے مذاکرات سبوتاژ کرنے کیلئے استعمال کیا۔ شمالی وزیرستان میں بمباری کے نتائج کا کسی کو علم نہیں، کوشش کر رہے ہیں معاملات جلد مذاکرات کی جانب آئیں، آپریشن کی صورت میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔ فضائی آپریشن میں پتہ نہیں چلتا کہ دہشتگرد مارے جا رہے ہیں یا عام لوگ۔ اسی طرح بم دھماکوں میں بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کون لوگ کر رہے ہیں اور اس میں عام لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ مذاکراتی عمل میں نہ تو کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی دونوں کمیٹیوں کے درمیان کوئی رابطہ قائم ہوا۔ بات چیت کو آگے بڑھانے کے لئے ہم ابھی تک حکومتی کمیٹی کے جواب کا انتظار کررہے ہیں۔ مذاکراتی عمل اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک فریقین ایک ساتھ بیٹھ کر مسئلہ پر بات نہیں کریں گے۔ فوجی آپریشن مسئلہ کا حل نہیں اس کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونگے۔ حکومتی کمیٹی نے کوئی رابطہ نہیں کیا، الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر آپریشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ الطاف حسین پاکستان اپنے لوگوں سے ملنے نہیں آ سکتے لیکن وہ لندن میں بیٹھ کر آپریشن کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ یہاں آ نہیں سکتے تو آپریشن کا مطالبہ کیسے کر رہے ہیں؟۔ دریں اثناء حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر کوئی خاص پیش رفت ہوئی ہے نہ ہی طالبان کمیٹی سے کوئی تازہ رابطہ ہوا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ مذاکرات میں ڈیڈلاک ختم کرنے اور امن مذاکرات کامیاب بنانے کے حوالے سے انفرادی خواہش یا سوچ اہمیت نہیں رکھتی۔ ملک و قوم، حکومت اور طالبان سب کو مل بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا، حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے آئندہ  اجلاس کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...