سیالکوٹ+لاہور (نامہ نگار+خصوصی نامہ نگار+ ا یجنسیاں) جموں کی امپالا جیل میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے پاکستانی شوکت علی کی نعش پاکستان پہنچ گئی جسے ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے گائوں سیال جٹاں کے قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔ مقتول شوکت علی کی نعش سیال جٹاں پہنچی تو کہرام مچ گیا اور ہر آنکھ اشکبار تھی جبکہ نماز جنازہ کی ادائیگی سے قبل خواتین نے بین کیا۔ اس موقع پر نوجوانوں نے نعرے بازی بھی کی۔ قبل ازیں بھارتی حکام نے واہگہ بارڈر پر شوکت علی کی ڈیڈ باڈی پاکستانی حکام کے حوالے کر دی جسے ڈی ایس پی پسرور میاں ابصار احمد کے سپرد کیا گیا جو نعش کو پروٹوکول کے ساتھ پسرور لے کر آئے۔ مقتول کے والد برکت علی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کا بیٹا نفسیاتی مریض تھا جو غلطی سے ورکنگ بائونڈری عبور کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوا جسے بھارتی فوج نے تشدد کا نشانہ بنا کر جموں جیل میں بند کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا خودکشی نہیں کر سکتا‘ اسے قتل کیا گیا ہے ۔امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ جموں جیل میں پاکستانی شہری کو قتل کرکے بدترین ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کیا گیا۔ بھارت پاکستانی قیدیوں کی نعشیں بھیج رہا ہے اور حکومت پاکستان اس سے دوستی و تجارت اور بجلی خریدنے کے معاہدے کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن کا خواب ادھورا ہے۔ شوکت علی کے قتل سے بھارت کا مذموم چہرہ ایک بار پھر کھل کر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ ہم شروع دن سے کہتے آرہے ہیں کہ بھارت کے زیرانتظام جیلوں میں قید پاکستانی سخت خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کو حالیہ واقعہ پر کسی صورت خاموش نہیں رہنا چاہئے بلکہ بھارتی دہشت گردی کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے۔نجی ٹی وی کے مطابق شوکت علی کے سر اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ شوکت کے سر پر گہرا زخم تھا جس سے خون بھی بہہ رہا تھا۔ اہلخانہ کا کہنا تھا کہ شوکت علی کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات تھے۔ شوکت علی کو تشدد کر کے ہلاک کیا گیا، اس کے گلے پر پھندے کا کوئی نشان نہیں تھا۔