تحریر… فرخ سعید خواجہ
بھائیوں کی آپس میں محبت فطری بات ہے لیکن بھائیوں میں ایسا بھائی جو عمر میں بڑا ہو اور اس کا کردار والد جیسا بن جائے ان کی محبت کا اور ہی رنگ ہوتا ہے معمار نوائے وقت مجید نظامی مرحوم جب اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کا ذکر کیا کرتے تھے تو ان پر خاص قسم کی کیفیت طاری ہو جاتی وہ اپنے بھائی کو دنیا کے بہترین بھائیوں میں سب سے زیادہ پیارا بھائی قرار دیا کرتے تھے۔ آج 25 فروری ہے حمید نظامی مرحوم کا یوم وفات‘ پچھلے برس حمید نظامی مرحوم کی برسی سے پہلے میں نے جناب مجید نظامی کا ان کے بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم کے حوالے سے انٹرویو کیا اس برس حمید نظامی مرحوم کی برسی جوں جوں قریب آرہی تھی ، مجھے جناب مجید نظامی کی یاد اور ان کی حمید نظامی مرحوم کے بارے میں کہی گئی باتیں یاد آتی چلی گئیں۔ جناب مجید نظامی نے فرمایا تھا کہ حمید نظامی نے میٹرک کرنے کے بعد پہلے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لیا مگر غالباً انہوں نے سوچا کہ بی ایس سی ایگریکلچر تعلیم حاصل کرکے کیا کروں گا سو وہ فیصل آباد سے لاہور منتقل ہو گئے۔ 1932ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1938ء میں اس کالج سے بی اے کیا۔ 1940ء میں ایف سی کالج سے انگریزی میں ایم اے کیا نظامی صاحب شروع ہی سے صحافی اور ادیب تھے اسلامیہ کالج میں وہ کالج میگزین ’’کریسنٹ‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ کالج کے سالنامہ ’’فروغ مشرق‘‘ کے ایڈیٹر کے فرائض بھی سر انجام دیئے۔ ایک ادبی اور سیاسی رسالے ماہنامہ ’’ساربان‘‘ جاری ہوا اس کے بھی نائب مدیر مقرر ہوئے وہ معروف ادبی رسالے ہمایوں میں باقاعدگی سے لکھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ شروع ہی سے رائٹ ونگر تھے مجید نظامی صاحب نے بتایا آپ اس زمانے کی تاریخ پڑھیں تو رائٹ لیفٹ کا ذکر ملے گا روس کے حامی دانشور، صحافی اور ادیبوں کو ’’سُر خا‘‘ کہا جاتا تھا چنانچہ نظامی صاحب اس لحاظ سے ’’اینٹی سُر خا‘‘ تھے کرنل سید امجد حسین ان کے کے چہیتے دوست تھے یہ دونوں روزانہ ملا کرتے تھے کرنل امجد حسین بیڈن روڈ آجاتے یا نظامی صاحب مسلم ٹائون چلے جاتے تھے جہاں کرنل امجد حسین کی رہائش گاہ تھی۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے دوران کرنل امجد حسین فوج میں بھرتی ہو گئے۔ وہ بتاتے میں گواہ ہوں کہ کرنل امجد حسین کے فوج میں چلے جانے کے بعد نظامی صاحب نے ایک ہفتہ تک کھانا نہیں کھایا، ہوٹل میں چائے پی لیتے ہوں تو الگ بات ہے ۔مال روڈ پر جہاں آج کل پی آئی اے کا دفتر ہے وہاں پر ’’لورینگ ہوٹل‘‘ اور جہاں واپڈ ہائوس ہے وہاں ’’میٹرو ریسٹورنٹ‘‘ ہوا کرتا تھا نظامی صاحب روزانہ وہاں جایا کرتے تھے اس طرح کافی ہائوس جانا ان کا روزانہ کا مشغلہ تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ مستقل طور پر لاہور کب منتقل ہوئے مجید نظامی صاحب نے فرمایا کہ جب میں لاہور آیا اس وقت سانگلہ ہل میں نویں جماعت کا طالب علم تھا لاہور میں کوئی ایسا سکول نہیں مل رہا تھا جہاں نویں جماعت میں داخلہ مل سکے۔ میو ہسپتال کے قریب جہاں ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’امروز‘‘ کے دفاتر ہوا کرتے تھے اس کے قریب ایک ہندو ہائی سکول میں مجھے داخلہ مل گیا وہاں سے میں نے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر میٹرک کیا۔ نظامی صاحب کی خواہش تھی کہ میں چارٹرڈ اکائونٹنٹ بنوں۔ اس زمانے میں پروفیسر حسن ہیلی کالج کے پرنسپل تھے وہ مسلمان طلباء کی تلاش میں رہتے تھے کہ ہیلی کالج میں داخلہ لیں۔ سرتاج عزیز وہاں ہیلی کالج میں میرے کلاس فیلو تھے، کچھ عرصہ ہندو سکھ طلباء کے ساتھ پڑھے، پاکستان بن گیا اور ہندو طالب علم چلے گئے تو کالج میں رونق نہ رہی۔ یہاں سرتاج عزیز کے علاوہ دو تین اور بھی لڑکے میرے کلاس فیلو تھے جن کے نام ذہن سے محو ہو چکے ہیں۔ میرا مزاج ہیلی کالج آف کامرس اور بی کام والا نہیں تھا۔ لہذا میں نے نظامی صاحب کو بتائے بغیر ہیلی کالج چھوڑ دیا اور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا میں نے پولیٹکل سائنس اور اکنامکس مضامین رکھے نظامی صاحب کو پتہ چلا تو ہنس کر کہنے لگے ’’ جہاں تم چاہتے تھے وہیں داخلہ لے لیا‘‘۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے بی اے کر لیا اور گورنمنٹ کالج ہی میں ایم اے پولیٹکل سائنس میں داخلہ لے لیا۔ نظامی صاحب بحیثیت بھائی کیسے تھے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جناب مجید نظامی کا کہنا تھا کہ ان سے اچھا بھائی شاید ہی کسی اور کو ملا ہو وہ چاہتے تھے کہ میں چارٹرڈ اکائونٹنٹ بنوں مگر بتائے بغیر ہیلی کالج چھوڑ کر گورنمنٹ کالج چلے جانے پر انہوں نے میرے اس اقدام کو برا نہ منایا بلکہ اسے بخوشی قبول کر لیا کیونکہ یہ میری چوائس تھی۔ نظامی صاحب مرحوم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ نظامی صاحب قائداعظمؒ کے پیروکار تھے ان کے کہنے پر انہوں نے نوائے وقت نکالا، پندرہ روزہ سے ویکلی اور ویکلی سے ڈیلی کیا لیکن مسلم لیگی ہونے کے باوجود وہ انڈیپنڈنٹ صحافی تھے۔ مسلم لیگ صحیح کام نہ کرنے پر اس پر تنقید بھی کرتے تھے میں نے بھی اب تک وہی پالیسی اپنا رکھی ہے وہ اپنے دور کے بہت بڑے صحافی تھے۔ بلا شبہ ان سے پہلے مولانا ظفر علی خان، عبد الحمید سالک، غلام رسول مہر بھی بڑے صحافی گزرے ہیں۔ حمید نظامی مرحوم کی باتیں کرتے ہوئے اکثر جناب مجید نظامی کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔ لندن سے واپسی پر بھائی سے آخری ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے بالخصوص مجید نظامی صاحب ہمیشہ رنجیدہ ہو جاتے تھے گویا وہ ان لمحوں کا قرب محسوس کر رہے ہوں۔ آج جناب مجید نظامی بھی اپنے اللہ کے حضور پیش ہو چکے اور جنت الفردوس میں یہ نیک روحیں موجود ہیں۔