یہ پون صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ 1937ءمیں جناب حمید نظامی اسلامیہ کالج لاہور کی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ وہ اسی کالج کے میگزین ”کریسنٹ“ کے ایڈیٹر بھی مقرر ہوئے۔ ایم اے انہوں نے انگریزی میں کیا مگر محبت انہوں نے اسلام، پاکستان اور اُردو سے کی یہی ان کا نظریہ پاکستان تھا۔ دنیا کے علوم و فنون سیکھو مگر اپنی دھرتی، مذہب اور ثقافت سے جڑے رہو۔ جناب حمید نظامی علامہ اقبال کی فکر کے مقلد تھے اس رزق سے گریز کرتے رہے جس سے پرواز میں کوتاہی کا احتمال ہو۔ تعلیم کے دوران ٹیوشن پڑھا کر اخراجات پورے کرتے۔ اس نازک موڑ پر نوائے وقت کا آغاز کیا جب پنجاب میں مسلم لیگ کو اخبار کی اشد ضرورت تھی۔ تحریک پاکستان کے یادگاردن 23 مارچ 1940ءکو پندرہ روزہ نوائے وقت کا آغاز ہوا اور حمید نظامی پاکستانی صحافت کے بانی قرار پائے۔ 1942ءمیں اسے ہفت روزہ بنادیا گیا۔ 19 جولائی 1944ءکو نوائے وقت روزنامہ بن گیا اور مسلم لیگ کا ترجمان ٹھہرا۔ مسلم لیگ منقسم ہوگئی مگر نوائے وقت تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہا ہے۔ اس جہد مسلسل کا سہرا نوائے وقت کے بانی جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی کے سر ہے۔ تاریخ صحافت کے یہ دو عظیم نام لازم و ملزوم ہوچکے ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل رہتا ہے۔ غالب نے درست کہا”وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے“۔
حق گوئی و بے باکی جناب حمید نظامی کا طرہ¿ امتیاز تھا۔ انہوں نے ”جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا“ نوائے وقت کا ماٹو بنایا۔ انکے شاندار اداریے صحافتی تاریخ کا انمول سرمایہ ہیں۔جناب حمید نظامی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ مسلم لیگ کے ہر اول دستے (ایم ایس ایف) کے پہلے صدر نامزد ہوئے۔ سیاست کے مکروفن نے ان کو سیاست سے بے زار کردیا اور وہ صحافت کی جانب یکسو ہوگئے۔جناب حمید نظامی نے 13 دسمبر 1942 کو قائد اعظم کے نام خط لکھ کر ایم ایس ایف پنجاب کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ انکے خط کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔”میں پورے خلوص، درد دل اور افسوس کے ساتھ آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مجھے پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت سے مستعفی ہونے کی اجازت دی جائے۔ میں گزشتہ سات ماہ سے اس منصب پر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ میں نے ملت کے کاز کو آگے بڑھانے کیلئے اپنی اہلیت کے مطابق کوشش کی ہے لیکن اب میرے لیے اس منصب پر مزید فائز رہنا ممکن نہیں رہا۔ میرے مستعفی ہونے کی وجوہات سیاسی نہیں بلکہ ذاتی ہیں۔بد قسمتی سے ہماری سیاست صاف ستھری نہیں ہے اور ہمارا عوامی اخلاقی معیار انتہائی گر چکا ہے۔ پنجاب کے عوام اپنے سیاسی مخالف کو شکست دینے کیلئے اس حد تک نیچے گر جاتے ہیں کہ وہ اسکی ساکھ کو مسخ کرنے کیلئے ہر قسم کے لاتعداد جھوٹے الزامات گھڑنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی مخالف کو ہرانے کا یہی آسان طریقہ ہے۔ میں اپنے اخلاقی کردار کو ہر چیز سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ میرا خدا جانتا ہے کہ اب تک میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے میرا سر شرم سے جھک جائے۔ گزشتہ دس دن کے دوران مجھے اس حد تک بے بنیاد الزام تراشی کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ ایک جانے پہچانے بدمعاش کو بھی میری حالت پر رحم آئیگا۔ جبکہ میرا کوئی قصور نہیں ہے“۔(حکیم محمد سعید: لیٹرز ٹو قائد اعظم)
افسوس آج کی سیاست اس حد تک زوال پذیر ہوچکی ہے کہ حکمران اشرافیہ صادق اور امین کے الفاظ آئین سے نکالنے کے درپے ہے۔ اخلاقیات پر مبنی جمہوریت کے ساتھ جناب حمید نظامی کی کمٹ مینٹ لازوال تھی۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لاءنے جناب حمید نظامی کے حساس دل کو متاثر کیا۔ وہ آمر کیخلاف ڈٹے رہے جھکنے اور بکنے کیلئے تیار نہ ہوئے۔ آمریت کے صدمے اور کچو کے اپنے دل پر سہتے رہے۔باضمیر افراد کا دل سنگ نہیں بلکہ شیشے کی طرح ہوتا ہے۔ آمریت کی اذیت اور کوفت نے انکے دل کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ 25 فروری 1962ءکو دل اور جان کی بازی ہار گئے اور پاکستانی صحافت کا ایک آفتاب غروب ہوگیا۔ جناب مجید نظامی نے حالات کے جبر کے باوجود جرات اور دلیری کے ساتھ اپنے بھائی کے پرچم کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ انہوں نے ایک نہیں چار آمروں کا مقابلہ کیا اور آخری سانس تک آبروئے صحافت کا چراغ جلائے رکھا۔
جنرل راحیل شریف کے کامیاب آپریشن ضرب عضب کے بعد دھرتی کے ایک اور قابل فخر سپوت سپہ سالار جنرل جاوید قمر باجوہ نے پاکستان سے دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کے مکمل خاتمے کیلئے ضرب رد الفساد کا آغاز کردیا ہے۔ اس ملک گیر آپریشن کا نام قرآنی فلسفے اور فکر اقبال کی روشنی میں رکھا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے“۔[البقرہ: 191] ”جو لوگ اللہ اور رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھائے جائیں“۔ [المائدہ: 33] افسوس فوجی عدالتوں نے جن دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی ہوئی ہے حکومت نے ان پر عملدرآمد روک رکھا ہے۔
علامہ اقبال نے کہا تھا ”دین ملا فی سبیل اللہ فساد“ اگر پنجاب اور سندھ کی حکومتیں رینجرز کو پنجاب اور اندرون سندھ آپریشن کی اجازت دیتیں تو دہشت گردوں کو ان علاقوں میں سلیپر سیل اور پناہ گاہیں بنانے کا موقع نہ ملتا اور آپریشن رد الفساد کی نوبت ہی نہ آتی۔ افسوس حکمرانوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رپورٹ کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کیا۔ انکی مجرمانہ غفلت کی بناءپر پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ڈیفنس لاہور میں افسوسناک دھماکے سے دس شہری جان بحق اور 34زخمی ہوگئے۔ خدا ہی جانے حکمران اشرافیہ کو کب احساس ہوگا کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے حکمرانوں نے پاکستان کیخلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کررکھا ہے۔ وزیراعظم مودی سے لے کر فوجی جرنیلوں، اینکروں اور صحافیوں کے پاکستان دشمن بیانات ریکارڈ پر آچکے ہیں۔ را کا افسر کلبھوشن زیر حراست ہے۔ بھارتی افواج کے سابق آرمی چیف بکرم سنگھ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں امن دشمن تنظیموں کو سرمایہ اور تربیت دےکر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنادیا جائے۔
پاک فوج اور سکیورٹی کے ادارے یکسو ہوکر بھارت کی اعلانیہ جنگ کا مقابلہ کررہے ہیں۔ پاکستان کے شہری مادر وطن کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں مگر حکمران اشرافیہ کی زبانیں گنگ ہیں۔ وہ بھارت کی مذمت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ حالت جنگ میں بھی وزیراعظم عوامی رائے کے برعکس بھارت کو خوش کرنے کیلئے بیانات دے رہے ہیں۔ ہندو ذہن کو قریب سے جانچنے اور پرکھنے والے عظیم قائد نے کانگرس کے لیڈروں کے بارے میں ”آفاقی سیاسی فتویٰ“ دیتے ہوئے کہا تھا۔ ”کانگرس کے لیڈر انتہائی بددیانت، دھوکے باز، عادی مجرم ہیں۔ مسلم لیگ کو توڑنے پھوڑنے اور شکست سے دوچار کرنے کا جنون انکے ذہن پر طاری ہے اور وہ اس مقصد کیلئے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں“۔[ایچ وی ہڈسن: گریٹ ڈیوائیڈ صفحہ 244]
یاد رہے کہ کانگرس کے لیڈر لبرل اور سیکولر تھے جبکہ بی جے پی کے موجودہ لیڈر کٹڑ انتہا پسند، مسلمان اور پاکستان دشمن ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ عوام اندرونی اور بیرونی سازشوں کے باوجود آگ اور خون کا سمندر عبور کرنے کے بعد بھی ثابت قدمی اور حوصلہ مندی کے ساتھ افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستانی وہ عظیم قوم ہے جس کے بارے میں چین کے عظیم لیڈر چو این لائی نے کہا تھا کہ 1965ءکی جنگ میں اگر بھارتی فوج لاہور میں داخل ہوجاتی تو زندہ دلان لاہور اس کو ڈنڈے مار مارکر بھگا دیتے۔ میڈیا کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ سنسنی سراسیمگی اور افواہیں پھیلانے کی بجائے عوام میں حوصلہ اعتماد اور عزم پیدا کرنا چاہیئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں حکومت پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ پانامہ بنچ کے محترم ججوں نے سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ شفاف سماعت اور اُمید افزاءیادگار ریمارکس سے عوام کی توقعات آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ ریاست کے کرپٹ سول ادارے بیس کروڑ عوام اور ریاست کی بجائے ڈٹ کر وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے درست کہا ہے کہ ”عوام پاکستان کی سپریم عدالت میں ہیں جبکہ جج اللہ کی عدالت میں ہیں“۔ رب کائنات سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہمارے محترم ججوں کو ریاست اور بیس کروڑ عوام کے ساتھ کھڑے ہونے اور مکمل انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔