بانی¿ نوائے وقت‘ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر حمید نظامی مرحوم کی 55 ویں برسی آج 25 فروری کو عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ آج ملک کی سلامتی کو سفاکانہ دہشت گردی اورمکار دشمن بھارت کی جن دوسری گھناﺅنی سازشوں کے باعث سنگین خطرات درپیش ہیں اور مودی سرکار کے اس ملک خداداد کیخلاف خبثِ باطن کو بھانپ کر بھی وزیراعظم میاں نوازشریف اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے دوسرے قائدین بھارت کیلئے وارفتگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے دوستی اور تجارت کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں‘ اسکے پیش نظر آج جرا¿ت و پیکر کی علامت حمیدنظامی ہی نہیں‘ میدانِ صحافت میں انکے جانثار سپاہی اور برادر خورد مجید نظامی مرحوم بھی شدت سے یاد آرہے ہیں جو زندگی بھر حمید نظامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نظریہ¿ پاکستان کی مدلل وکالت کرتے رہے اور ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ببانگ دہل چیلنج کرتے رہے۔ حمیدنظامی نے ایوبی مارشل لاءکی مزاحمت اور اسکی طاری کردہ گھٹن کا سامنا کرتے ہوئے 25 فروری 1962ءکو اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اور میدان صحافت میں انکی جلائی گئی شمع کو روشن کرتے ہوئے‘ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے عملی محافظ کا کردار ادا کرتے ہوئے اور پاکستان میں اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل کی ہمہ وقت فکرمندی رکھتے ہوئے مجیدنظامی 26 جولائی 2014ءکو اس جہانِ فانی سے آبرومندی کے ساتھ رخصت ہوئے۔ آج بھارت اور پاکستان کی سلامتی کے درپے دوسری قوتیں یہاں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کے ذریعے پاکستان کا ترقی کا سفر روکنے اور اس کا استحکام پارہ پارہ کرنے کی جن گھناﺅنی سازشوں میں مصروف ہیں‘ انکے مو¿ثر اور فوری توڑ کیلئے حکمرانوں کی بے عملی کو محسوس کرتے ہوئے آج حمید نظامی اور مجیدنظامی شدت سے یاد آرہے ہیں جو حدیث ِ رسول پاک ﷺ کے مطابق ہر جابر حکمران کے سامنے کلمہ¿ حق جہاد سمجھ کر بلند کرتے رہے۔ ادارہ نوائے وقت آج بھی انکے زریں اصولوں پر کاربند ہے۔
مرحوم حمید نظامی قائداعظم کی زیر قیادت تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے اور علامہ اقبال کے خیالات و افکار کی روشنی میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطہ کے حصول کی دردمندی رکھتے ہوئے انہوں نے بطور طالب علم رہنماءقائداعظم کی آواز پر لبیک کہا اور 1937ءمیں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھ کر وہ تحریک پاکستان کی عملی جدوجہد میں سرگرم ہو گئے تاہم انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی لگن بھی کم نہ ہونے دی اور اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد ایف سی کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ 1942ءمیں دوسری بار مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے جبکہ تحریک پاکستان اور اسکے قائدین کےخلاف متعصب ہندو پریس کے زہریلے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کیلئے انہوں نے قائداعظم کی ہدایت پر 23 مارچ 1940ءکو قرارداد پاکستان کی منظوری کے موقع پر پندرہ روزہ نوائے وقت کے اجراءکا اعلان کیا جس کا پہلا شمارہ 29 مارچ 1940ءکو منظر عام پر آیا اور پھر یہ مسلم لیگ اور تحریک پاکستان میں شامل برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات کا ترجمان بن گیا‘ اس طرح نوائے وقت اور تحریک پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ٹھہرے۔ حمید نظامی نے نوائے وقت میں اپنے عالمانہ‘ ٹھوس‘ بامعنی اور بامقصد اداریوں کے ذریعے مسلمانان ہند کو صحیح فکری سمت دی اور قیام پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے کارکنوں کو گائیڈ لائن بھی فراہم کرتے رہے۔ دو قومی نظریہ پر مبنی نظریہ پاکستان ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا اور اس نظریے کی بنیاد پر حصول پاکستان کیلئے وضع کئے گئے اصولوں سے اپنی صحافتی زندگی میں نہ کبھی انحراف کیا‘ نہ کبھی ان اصولوں پر مفاہمت کی۔ قیام پاکستان کی منزل حاصل ہونے سے پہلے ہی نوائے وقت 1942ءمیں پندرہ روزہ سے ہفت روزہ اور پھر قائداعظم کی ہدایت پر 1944ءمیں روزنامہ کے قالب میں ڈھل گیا تھا جسے قیام پاکستان کے بعد حمید نظامی نے دو قومی نظریہ کی ترویج و حفاظت اور پاکستان کے استحکام کیلئے وقف کر دیا اور پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونیوالے اس ملک خداداد میں اسلامی اصولوں کے مطابق جمہوریت کے فروغ اور جمہوری حکمرانی کی تدریس و تلقین کو اپنے مشن کا حصہ بنایا۔ انہوں نے اپنے اچھوتے اندازِ تحریر و بیان کے ذریعہ بلاشبہ باوقار اور صاف ستھری آزاد صحافت کو پروان چڑھایا اور تحریک پاکستان کے مقاصد کو اجاگر رکھتے ہوئے دو قومی نظریے کی شمع کی لو کبھی مدھم نہ ہونے دی۔ وہ خلوصِ دل کےساتھ یہ محسوس کرتے تھے کہ دو قومی نظریہ کو ہمہ وقت تازہ اور زندہ رکھ کر ہی قیام پاکستان کے مقاصد کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے اور انگریز اور ہندو کے استحصالی نظام کی بدولت پیدا ہونیوالی غلامانہ ذہنیت کو قومی اور ملی خودمختاری کی سوچ میں تبدیل کرکے شاہراہ ترقی پر گامزن ہوا جا سکتا ہے۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد بدقسمتی سے انگریز اور ہندو کے ٹوڈی مفاد پرست سیاست دانوں کے ٹولے نے اپنے مفادات کی خاطر اسٹیبلشمنٹ اور سول و فوجی بیوروکریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے قیام پاکستان کے مقاصد سے انحراف اور جمہوریت پر شب خون مارنے کی خاطر طالع آزماﺅں کیلئے راستہ ہموار کرنا شروع کر دیا۔یہ حمید نظامی کیلئے انتہائی تکلیف دہ صورتحال تھی تاہم انہوں نے ملک کی تعمیر و ترقی کےلئے سیاست و صحافت کے جو آبرومندانہ زریں اصول متعین کئے تھے‘ وہ سختی سے ان پر کاربند رہے اور قیام پاکستان کے مقاصد سے انحراف کرنےوالوں کے آگے چٹان بن کر کھڑے ہو گئے۔
جب ایوب خان نے بیوروکریٹ سکندر مرزا کی ملی بھگت سے ملک میں جمہوریت کی بساط الٹا کر پہلا مارشل لاءنافذ کیا تو حمید نظامی نے اسکی ڈٹ کر مخالفت کا فیصلہ کیا چنانچہ انہیں حکومت اور حکومتی مشینری کی سختیوں اور جبرو گھٹن کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل وہ ممتاز دولتانہ کی وزارت اعلیٰ میں نوائے وقت کی بندش کا سامنا کر چکے تھے مگر انکے پائے استقلال میں کبھی لرزش نہیں آئی تھی۔ ایوب کی جرنیلی آمریت میں انہیں نوائے وقت پر توڑی جانیوالی سختیوں سے زیادہ جمہوری معاشرے کیلئے پیدا ہونیوالی گھٹن سے کرب محسوس ہوتا تھا جبکہ ایوب کے مارشل لاءکی سختیوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے حمید نظامی کے کاروباری ساتھی اور اخبار کے پرنٹر نے اخبار شائع کرنے سے انکار کر دیا تو یہ صورتحال حمید نظامی کے عارضہ¿ قلب کا باعث بنی اور 25 فروری 1962ءکو انہوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کر دی۔ اس تناظر میں حمید نظامی مرحوم کو شہید مارشل لاءقرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے نقیب کی حیثیت سے نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر بے باک اور آزاد صحافت کے جو زریں اصول متعین کئے تھے‘ مجیدنظامی نے بھی زندگی بھر ان کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور گلستانِ صحافت میں اپنے برادر بزرگ حمیدنظامی کے لگائے پودے کو ایک تناور درخت بنایا چنانچہ نوائے وقت گروپ آج بھی انہی اصولوں پر چلتے اور سول و فوجی آمریتوں کے ہر قسم کے جبری ہتھکنڈوں کا سامنا اور مقابلہ کرتے ہوئے ملک‘ قوم اور صحافت کی خدمت کا فریضہ ادا کررہا ہے۔ نوائے وقت گروپ جو اب ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آبرومندی اور وقار کی علامت بن چکا ہے‘ حمید نظامی کے صحافتی ورثے اور ملک کی نظریاتی اساس کا محافظ ہے اور نظریہ پاکستان کی ترویج و فروغ اور پاکستان کو صحیح معنوں میں قائداعظم کا پاکستان بنانے کے جذبے سے معمور ہے۔ اس تناظر میں مرحوم حمید نظامی اور مرحوم مجیدنظامی نے باوقار صحافت کے جو اصول متعین کئے تھے‘ نوائے وقت ان پر کبھی مفاہمت کریگا‘ نہ کوئی حرف آنے دیگا۔ خدا کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ادارہ نوائے وقت کو حمید نظامی کے مشن کی تکمیل اور قائدؒ و اقبالؒ کے پاکستان کے استحکام کیلئے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لانے کا موقع دیئے رکھے تاکہ اس وطن عزیز کی سالمیت کے درپے دشمنانِ پاکستان کے سینوں پر سانپ لوٹتے رہیں اور پاکستان کو اسکی نظریاتی اساس سے ہٹانے کیلئے انکے خواب کبھی شرمندہ¿ تعبیر نہ ہو سکےں۔
آج قوم اس حوالے سے بھی مضطرب ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف بھارت کی سازشوں کے تحت وحشیانہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آئی ارض وطن کو تڑپتا چھوڑ کر ترکی کے دورے پر گئے اور وہاں اپنے اس غیرمنطقی دعوے کا اعادہ کرکے بھارتی دہشت گردی سے گھائل قوم کے زخم تازہ کئے کہ انہیں بھارت سے دوستی کیلئے قوم کا مینڈیٹ حاصل ہوا ہے۔ انکے اس دعوے پر مرحوم حمید نظامی اور مرحوم مجید نظامی کی روحیں بھی تڑپ رہی ہونگی۔ میاں نوازشریف اپنے اسی دعوے کے ساتھ آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جائینگے تو انکے ہاتھوں راندہ¿ درگاہ بن کر گھر واپس لوٹتے ہوئے انہیں بخوبی احساس و اندازہ ہو جائیگا کہ قوم نے انہیں بھارت کے ساتھ دوستی کیلئے مینڈیٹ دیا تھا یا انکے انتخابی نعروں کے مطابق توانائی کے بحران کے باعث ملک پر چھائے اندھیرے دور کرنے کیلئے۔ انہیں آئندہ انتخابات میں قوم کے پاس جاتے ہوئے بھارت سے دوستی کے دعوﺅں سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ قوم آج ”اپریشن ردالفساد“ میں افواج پاکستان کے ساتھ یکجہت ہے تو اس کا مقصد ارض وطن پر بھارت کے پھیلائے فساد کو ہی جڑ سے اکھاڑنا ہے۔ وزیراعظم فسادیوں سے دوستی کی خواہش ظاہر کرکے ملک کی سالمیت کے تحفظ و دفاع کے وہ تقاضے کیسے پورے کرسکتے ہیں جس کیلئے آج پوری قوم سکیورٹی فورسز کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہے۔
آج کے یوم حمید نظامی پر ملک کی سالمیت کیلئے فکرمندی کے حوالے سے مجید نظامی کی تازہ ہوتی یادیں بھارت کی پھیلائی دہشتگردی میں ملک جل رہا ہے اور وزیراعظم بھارت سے دوستی کے خواستگار ہیں
Feb 25, 2017