میری صحافت کے دو محسن

میں اپنے بعض نامور دوستوں کی طرح بیک وقت مقرر اور صحافی نہیں ہوں، صرف صحافی ہوں لیکن کئی صحافی چوں کہ اپنی قوت تقریر کی وجہ سے بھی بہت معروف اور مصروف ہیں اس لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر صحافی مقرر بھی ہوا کرتا ہے اور مقرر بھی اس حد تک کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ صحافی بڑا ہے یا مقرر بڑا ہے۔ میں یہ غلط فہمی دور کرنے کی بہت کوشش کرتا ہوں لیکن جن لوگوں کو دو چار آدمی جانتے ہیں ان کو کسی تقریب میں بلانے میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ نقصان جو بھی ہوتا ہے میزبانوں کا نہیں، ان لوگوں کا ہی ہوتا ہے جو اچھی تقریر نہیں کر سکتے اور چند بھدے اکھڑے ہوئے جملے بول کر حاضرین سے اجازت لے کر انہیں خوش کرتے ہیں۔ میری زبان میں لکنت تو شروع سے ہی تھی، جو اب اتنے برس بعد تھک ہار کر بہت کم ہو گئی ہے۔
چناںچہ میرے عربی کے استاد مولانا مسعود عالم ندوی نے پہلے تو میرے فارسی نام کا عربی میں ترجمہ کر کے اسے بدل دیا اور پھر دعائیہ انداز میں کہا کہ خدا تمہیں اس ” بے زبانی کا بدلہ بولتی تحریر کی صورت میں دے گا!“ استاد محترم کی خواہش کے مطابق تحریر بولتی ہے یا نہیں، البتہ میری زبان کچھ بولنے لگ گئی ہے لیکن جتنی زبان بولتی ہے۔ تحریر اتنی ہی کم بولنا شروع ہو گئی ہے، مگر اس کے باوجود میں اپنے آپ کو صحافی کہنے پر اصرار کرتا ہوں کیوں کہ مجھے یہ نعمت جس شخصیت کے طفیل ملی ہے، اس کے حوالے سے تحدیث نعمت لازم ہے۔میرے صحافی بننے میں اگرکسی انسان کا ہاتھ ہے تو وہ ہے مرحوم و مغفور حمید نظامی، میری ان کے ساتھ ملاقات نہیں تھی ، البتہ روشناسی بہت تھی کہ وہ کافی ہاﺅس میں احباب کے ساتھ تشریف لاتے تھے اور میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اپنے ملنے والوں کے ساتھ ، اس طرح یہ غائبانہ تعارف ہر روز ہی ہوتا تھا۔
بعد میں ایک وقت آیا لاہور میں میری کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی، میں اپنے گاﺅں کے قریب جوہر آباد چلا گیا۔ میں نے جوہر آباد سے نظامی صاحب کو خط لکھا کہ میں صحافت میں آنا چاہتا ہوں دو تین روز میں ان کا جواب آ گیا کہ صحافت دور سے اچھی لگتی ہے۔ مگر اس میں بڑی آزمائشیں اور بہت سی مشقتیں ہوتی ہیں۔میں اس خط کا جواب دیے بغیر ان کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ میں جماعت اسلامی کا کارکن تھا جو نظامی صاحب کی ایک نا پسندیدہ جماعت تھی لیکن پسند و نا پسند میں بہت سخت ہونے کے باوجود انہوں نے مجھے فوراً ہی قبول کر لیا۔ ان کی ہدایت پر میں دوسرے دن نوائے وقت کے منتظم شیخ حامد محمود صاحب سے ملا۔ انہوں نے مجھ سے میرے اخراجات کی تفصیل پوچھی، یہ اخراجات کل ایک سو روپے بنے، حالانکہ میں وائی ایم سی اے ہوٹل میں رہتا تھا، اسی کے ریستوران میں کھانا کھاتا تھا، دوسرے اخراجات بھی اسی معیار کے تھے لیکن کیا سستا زمانہ تھا۔ شیخ صاحب نے بیس روپے میرے جیب خرچ کے دے کر میری تنخواہ ایک سو بیس روپے مقرر کر دی اور میں نے نوائے وقت میں کام شروع کر دیا۔ وقت کے سب سے م¶قر اخبار میں جس کی توقیر میں حمید نظامی صاحب کے بعد ان کے بھائی نے کمی نہیں آنے دی‘ معیار برقرار رکھا اور سرکولیشن میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔مرحوم نظامی صاحب چاہتے تھے کہ سرکولیشن بے شک زیادہ نہ ہو لیکن ان کا اخبار لندن ٹائمز کی طرح کم سرکولیشن کے باوجود سب سے زیادہ م¶ثر ہو۔ بدلے حالات کے تحت ان کے جانشین مجید نظامی صاحب نے یہ پالیسی بدل دی اور ایسا وقت بھی آ گیا جب تنخواہ قسطوں میں نہیں یک مشت پہلی تاریخ کو بھی ملنے لگی۔
حمید نظامی صاحب کارکنوں کی کارکردگی پر عقابی نگاہ رکھتے تھے اور ان کی صلاحیتوں سے باخبر رہتے تھے۔ میں زیرتربیت سب ایڈیٹر تھا یعنی پکا نہیں تھا‘ انہی دنوں راولپنڈی میں نوائے وقت میں سب ایڈیٹر کی اسامی خالی ہوئی تو میں نے درخواست دے دی جواب ملا کہ اگر تم پنڈی چلے گئے تو وہاں عمر بھر سب ایڈیٹر ہی رہو گے‘ تمہارے اندر کچھ صلاحیتیں ہیں جو لاہور میں ہی برسرکار آ سکتی ہیں اس لئے مشورہ یہی ہے کہ لاہور مت چھوڑو۔ یہ مشورہ حد سے زیادہ صحیح تھا۔ مرحوم کی مہربانی تھی کہ میں اس حادثے سے بچ گیا۔ ناتجربہ کاری کی اس عمر میں میرا نوائے وقت چھوڑ کر اس کے مخالف ادارے پروگریسو کے ہفت روزہ لیل و نہار میں چلے جانا پھر ایوب خان کے دور میں اس ادارے کو سرکاری تحویل میں لے لینے پر استعفا دینا اور پھر نوائے وقت میں واپسی کی درخواست پر میرے ہر دوست نے کہا کہ تم اب کسی صورت میں نوائے وقت میں قبول نہیں کئے جا سکتے۔دونوں اداروں کی شدید رقابت کی ایک دنیا گواہ تھی لیکن مثبت جواب پایا اور صرف اتنا پوچھ کر کہ تم کہیں کمیونسٹ تو نہیں ہو گئے؟ پھر سے لیل و نہار کی تنخواہ پر نوائے وقت میں کام دے دینا یہ اس وقت کی صحافتی دنیا کی ایک بڑی خبر تھی‘ جو تعجب کے ساتھ سنی گئی۔
مجھے نہیں معلوم کہ جماعت اسلامی کے ایک کارکن اور پھر پروگریسو کے ایک ملازم کو نوائے وقت میں اچھی پوزیشن پر واپس لے لینا کیوں ممکن ہوا؟ حمید نظامی جیسے سخت مزاج اور نظریاتی طور پر متعصب شخص نے دو قومی نظریے کے علم بردار اخبار میں کسی غیر کو کیسے قبول کیا۔ جب تک وہ بقید حیات تھے‘ اس کے پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اس شخص کی بے پناہ دیانت اور امانت نے اس کے اندر ایک روشنی پیدا کر دی تھی جس میں سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کی نیکی نے ہی ہمیں مجید نظامی دے دیا جس نے بڑے بھائی کی جانشینی کا حق ادا کر دیا۔ میں تو اپنی صحافت میں اگر کسی انسان کا احسان مند ہوں تو یہ دونوں بھائی ہیں۔ ایک نے صحافی اور دوسرے نے کالم نویس بنایا۔

ای پیپر دی نیشن