بحیثیت صحافی ”حمید نظامی“

Feb 25, 2018

دنیا میں بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو صحیح معنوں میں کسی قوم، کسی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں اور ایسی ہی چند شخصیات میں سے ایک بڑی ہی باوقار شخصیت محسن صحافت، بانی نوائے وقت محترم حمید نظامی کی ہے۔آپ 3 جنوری 1918 ءکو سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے مقاصد اور نظریات میں بلا کا استحکام تھا۔ یعنی طاقتور کے مقابلے میں کمزور کی حمایت اور وطن پرستی کے گہرے جذبات ان کے نظریات کے نمایاں عناصر تھے۔حمید نظامی ایسے صحافی تھے جنہوں نے اُردو صحافت کے دھارے کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ حکیم الامت ، مفکر پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان بابائے قوم قائداعظم کے پیرو کار تھے۔حمید نظامی کا ایک پسندیدہ شعر تحریر کرتا چلوں جو علامہ اقبال کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
ڈاکٹر فوزیہ اسحق کی کتاب ”بحیثیت صحافی حمید نظامی“ سے راجہ احمد خان نے 1949 ءکا ایک واقعہ بتایا ”آج یونیورسٹی میں ایک میٹنگ ہے جس میں حمید نظامی ،علامہ اقبال کے اشعار میں ”پاکستان کی منزل مقصود“ پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ میٹنگ چند اصحاب پر مشتمل تھی جو پاکستان کے مستقبل استحکام اور بقا کے متعلق دردمندی اور خلوص سے غور وفکر کیا کرتے تھے۔ اس بزم کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے جب مقرہ وقت پر اجلاس شروع ہوا اور نظامی صاحب نے اپنا مضمون پڑھنا شروع کیا تو خیالات کی روانی، خلوص کی فراوانی اور غوروفکر کی گہرائی نے سب کو ہمہ تن گوش بنا دیا۔ نظامی صاحب، علامہ اقبال کے فارسی، اُردو کے اشعار سے اسلام، ملت اسلامیہ اور پاکستان کے مفہوم کو بڑے دل نشین پیرائے میں واضح کر رہے تھے۔قوم وملک کے درد ناک حالات، ملت اسلامیہ کی ابتری، مرد مسلمان کی زبوں حالی اور لیڈروں کی اخلاقی پستی کا ذکر آیا تو جذباتی ہو گئے۔ ان کی آوازلڑکھڑا رہی تھی، آخر جذبات کا دھارا بہہ نکلا اور نظامی صاحب رونے لگے ۔ہم میں سے ہر ایک کی آنکھ اشک بار تھی،آخر بڑی مشکل سے انہوں نے اپنے آپ پر قابوپایا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
”ہمیں آج جرات مندی اور بے باکی کی سخت ضرورت ہے۔ پاکستان بن گیا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کی آرزو پوری ہو گئی، قائداعظم کی اچانک وفات کی وجہ سے فتنے سر اٹھانے لگے ہیں۔ غلط کار اور غلط کیش رہنما ملک وقوم کی بہبودی سے بے نیاز اپنی کرسیوں کی حفاظت کے لیے سر گرم عمل ہیں،ذاتی منفعت نے انہیں اندھا کر دیا ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ اقبال کے کلام کو نوجوانوں کے دلوں میں بٹھایا جائے تاکہ اقبال کے مرد مومن تیار ہوں اور ملک وقوم کی حفاظت کر سکیں، ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق کہہ سکیں اور کسی خوف، تحریص، دھمکی یا لالچ سے مرعوب نہ ہوں۔“
نظامی صاحب طالب علمی کے دوران اسلامیہ کالج لاہور کے مجلہ ”کریسنٹ“ کے 1935 ءمیں نائب مدیر مقرر ہوئے ۔ اس کے علاوہ آپ مجلہ ”فروغ مشرق “ سے بھی وابستہ رہے۔ اس کے بعد نظامی صاحب نے ایک سیاسی اور معلوماتی ماہنامہ ”ساربان“ میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر (اعزازی) طور پر کام کیا۔ پھر ڈاکٹر سنہ پال کے اخبار ”نیشنل کانگرس“ کے ادارہ تحریر میں شامل ہوگئے اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے مقالے سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
”ان دنوں جب صوبہ کانگریس کمیٹی کے صدر ڈاکٹر سنہ پال نے ”نیشنل کانگرس“ کے نام سے ایک روزنامہ جاری کیا تو چراغ حسن حسرت اور باری مرحوم کے علاوہ حمید نطامی بھی اس کے ادارتی عملے میں شامل ہوگئے ۔لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ حمید نظامی کانگرس کے قائل ہو گئے تھے وہ تو صرف مسئلہ معاش کو حل کرنے کے لئے عملے میں شامل ہو گئے اور یہاں ”نیشنل کانگرس“ میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے مسلمانوں کے اعلیٰ سیاسی مفاد کی نگہبانی کے فرائض سرانجام دئیے۔ قائداعظم نے ایک تقریب کے دوران حمید نظامی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ”میں چاہتا ہوں لاہور سے ایک ایسا اخبار نکالا جائے جو حقیقت میں سو فیصد مسلم لیگ تحریک پاکستان کی ترجمانی کرے اور میری خواہش ہے کہ یہ اخبار تم نکالو“ اخبار کی اشاعت سے قبل حمید نظامی صاحب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلی مرتبہ 1937 ءمیں پھر دوسری بار 1943 ءاور پھر آخری بار 1944 ءمیں صدر منتخب ہوئے۔ آپ بانی پاکستان قائداعظم کے چند مخلص جانثاروں میں سے ایک تھے۔ اسی بنا پہ آپ نے قائداعظم کے حکم پر پہلی بار نوائے وقت کا آغاز ”پندرہ روزہ“ سے کیا اس کی اشاعت کے کچھ ہی سال بعد پندرہ نومبر 1946 ءکو اسے ”ویکلی اخبار“ بنا دیا گیا۔ جو حقیقی معنوں میں اس دور کی ایک روندی، کچلی ہوئی مسلم امہ کی آواز کو بلند کرنے کے لیے نکالا گیا۔ اس دور میں نوائے وقت کی اشاعت پر ہندوکانگریس اور ہندو اخبارات کی طرف سے نہ صرف مخالفت شروع ہوئی بلکہ نوائے وقت کے ارباب اختیار پر ظلم وستم کے طرح طرح کے پہاڑ توڑے گئے۔ حمید نظامی نے سب مشکلات اور دشمنوں کا مقابلہ ڈٹ کر کیا۔ ہفت روزہ نوائے وقت کو چند ہفتوں کی اشاعت کے بعد روزنامہ بنا دیا گیا اور جلد ہی یہ ایک روزنامے کی شکل میں مسلم امہ کی آواز بنتا ہوا مسلسل باقاعدگی سے شائع ہونے لگا۔ بانی پاکستان قائداعظم کے افکار واذکار کا امین، حالاتِ حاضرکا آئینہ دار، منافقوں کے لیے خنجر، مظلوم قوم کی ایک صدا، صحافتی دنیا کا ایک روشن تابندہ ستارہ، تاریخ پاکستان کی تصویر، غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے لوگوں میں کلمہ حق کو بلند کرنے والا حقیقت کا ترجمان ، قائد اور اقبال کی سوچون کا آئینہ دار روزنامہ نوائے وقت صحافتی دنیا کا وہ واحد قومی اخبار ہے جو صحیح معنوں میں پاکستانی قوم کا اپنا اخبار ہے۔
حمید نظامی نے قیام پاکستان سے پہلے باقاعدہ افسانے بھی لکھے تھے جو اس زمانے کے ادبی اور معیاری رسالوں میں شائع ہوا کرتے تھے۔بقول ڈاکٹر مبشر حسن ایک بار جب انہوں نے حمید نظامی سے پوچھا کہ آپ کے تحریر شدہ افسانے من وعن شائع ہو جاتے ہیں یا ایڈیٹران کی کانٹ چھانٹ کرتے ہیں اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ”اب میرے افسانے کا معیار ایسا نہیں ہے کہ کسی ایڈیٹر کو اس کی کانٹ چھانٹ کی ضرورت محسوس ہو۔“
آپ کی وفات 24 فروری1962 ءمیں ہوئی۔ آپ نے ہمیشہ جابر سلطان کے سامنے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلمہ حق کی صدا کو بلند کیا۔حمید نظامی اُردو صحافت میں حق وصداقت کا نقیب اول اپنے نقوش چھوڑ کرر اہی ملک عدم ہوا۔
محترم حمید نظامی نے ’نوائے وقت‘ کی صورت سرزمین صحافت میں جو بیج بویا تھا اُسے اُن کے، برادرِ خورد، آبروئے صحافت محترم مجید نظامی کی مخلص اور معتبر باغبانی نے ایک تناور درخت میں بدل دیا ہے۔ اس تناور درخت کو ہم اب ”نوائے وقت گروپ“ کے نام سے جانتے ہیں جس میں ہفت روزہ ندائے ملت، ہفت روزہ فیملی میگزین، روزنامہ ”دی نیشن“ (انگریزی)، ماہنامہ ”پھول“ اور ٹی وی چینل ”وقت نیوز‘ ‘ کے علاوہ حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان بھی شامل ہے۔ جو بانی نوائے وقت کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اسے آبروئے صحافت محترم مجید نظامی کی سرپرستی کا شرف حاصل رہا ۔ اُن کی وفات کے بعد اب ان کی صاحبزادی محترمہ رمیزہ مجید نظامی اس کی چیئر پرسن ہیں اور معروف براڈ کاسٹر اور دانشور جناب ابصار عبدالعلی اس کے ڈائریکٹر ہیں جو اس معتبر ادارے کی وساطت سے محترم حمید نظامی کے مشن کے مقاصد یعنی میڈیا پرسنز کی استعدادِ کار میں اضافہ کرنے ، جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنے اور ان میں پیشہ ورانہ کمٹمنٹ پیدا کرنے کے لئے پچھلے پندرہ برس سے معتبر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مزیدخبریں