حمید نظامی… ایک عہد ساز شخصیت

Feb 25, 2020

افضل رضوی

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
آج میں جس شخصیت کے خد وخال اور تحرکِ زندگی کو آپ کے سامنے پیش کر وں گا اس شخصیت کا قد وکاٹھ اتنا بڑاہے کہ مجھے خیالات وتصورات اور جذبات و احساسات کے اظہارکے لیے مشکل کا سامنا ہے۔جب میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا تو قرطاسِ ابیض بھی سامنے تھا اور شخصیت کا تعارف و حوالہ بھی سامنے تھا باوجود اس کے میرا قلم انتقال ِ الفاظ میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہا تھاکیونکہ مجھے جس کے بارے میں لکھنا تھا وہ ایک ایسی شخصیت ہے جس کا ذکر آتے ہی تحریک و تاریخ ِ پاکستان کے ابتدائی نقوش ہمارے سامنے ابھرنے لگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میری اس سوچ سے سبھی کو اتفاق ہوگا۔ دورِ جدید کا ہر صحافی اور قلم کار اس شخصیت کے جاندار کردار سے واقف ہے۔ایک ایسی شخصیت جس کی جسمانی زندگی اگرچہ طویل نہ تھی باوجود اس کے فکری تحرکات ونظریات اتنے عشرے گزرنے کے بعد بھی اسی طرح زندہ وجاوید ہیں جیساکہ اس کی زندگی میں تھے، ایک ایسی شخصیت جس کی زندگی کا نصب العین برے کو برا کہنا اور سچ اور حق کا بے باکی کے ساتھ اعلان کرنا اور اپنے پرائے کی تمیز کیے بغیر عدل و صداقت کی با ت کرناہو،ایک ایسی شخصیت جس کا تصور آتے ہی قیامِ پاکستان کے مناظر وا ہونا شروع ہو جائیں، وہ حمید نظامی مرحوم و مغفور ہی کی ہو سکتی ہے۔ حمید نظامی مرحوم کا نام آتے میرا اشہب ِ فکر مجھے ماضی کے گلی کوچوں میں لے بھاگا ہے اور میں چشمِ تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک نوجوان افکارِ قائد اعظم کے پرچار کے لیے، فکر ِ اقبال کی اشاعت کے لیے اور محمد رسول اللہؐ کے دین کی ناموس کے لیے شبانہ روز اپنے ہم عمروں میں ممتاز ہندو بنیے کی فکر وسوچ اور منصوبوں کو خاک کرنے کے لیے برسرِ پے کار ہے۔میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ نوجوان کبھی لاہور میں تو کبھی شملے میں مسلمان نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے کے لیے میدانِ عمل میں مصروفِ کار ہے۔اوراقِ تاریخ ہمیں بتاتے ہیں کہ پھر ایک دن ایسا آیا کہ برِ صغیر کے مسلمانوں کے عظیم رہبر اور بانی ء پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ نے خود اس نوجوان کو ملاقات کے لیے بلایا۔
تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی یہ شخصیت جسے لوگ حمید نظامی کے نام سے جانتے ہیں صوبہ پنجاب کے ایک ضلع شییخوپورہ کے معروف قصبے سانگلہ ہل میں 3 جنوری 1915کو پیدا ہوئے۔ 1920 کو جماعت اول میں داخل ہوئے۔ 1934 میں مقامی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد لاہور چلے آئے اور اسلامیہ کالج سے 1938 میں بی۔ اے کیا یہاں دورانِ تدریس کالج کے علمی وادبی مجلے کریسینٹ کے نائب مدیر رہے اور مزاحیہ اور سنجیدہ موضوعات پر مضامین لکھتے رہے بعد میں اسی مجلے کے مدیر بھی بنے۔ 1940میں جامعہ پنجاب سے انگریزی میں ایم۔ اے کی ڈگری لی۔
ان کی سیاسی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی ہی سے ہوا تھا۔ چنانچہ جب قائد اعظم کی ہدایت پر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن معرض ِ وجود میں آئی تو اس میں جناب حمید نظامی کا کردار کلیدی تھا۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت کچھ عرصہ فیڈریشن کے صدر بھی رہے علاوہ ازیں وہ اسلامیہ کالج لاہور کی طلبہ انجمن کے منتخب صدر بھی رہے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز سیاسی ماہنامے ساربان سے کیا لیکن جلد ہی اس سے کنارہ کش ہو گئے اور ڈاکٹر سیتا پال کے اخبار نیشنل کانگرس سے وابستگی اختیار کر لی، مگر سیاسی اختلافات کی بنا پر یہاں سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ ان کی طبیعیت میں یہ بات تو رچ بس گئی تھی کہ صحافت ہی کو پیشے کے طور پر اپنانا ہے مگر حالات ان کے لیے ساز گار نہ تھے بلکہ یہ دور مسلمانانِ ہند کے لیے نہایت کٹھن تھا۔ ایک طرف تو مسلمان انگریز سے برسرِ پیکار تھے تو دوسری طرف ہند و بنیے کی سازشوں کا بھی مقابلہ کر رہے تھے۔مسلمان علما بھی افتراق و انتشار کا شکارتھے،کچھ کانگرس کی حمایت کررہے تھے تو کچھ مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔صحافت بھی اسی ابتری سے دوچار تھی۔ مولانا ظفر علی خان کا زمیندار، مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک کا انقلاب اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے تھے لیکن کو ئی اخبار ایسا نہ تھا جو بالخصوص تحریکِ پاکستان کی حمایت اور تبلیغ و ترویج کے لیے کام کرر ہا ہو، اورجو ہندو اخبارات کی مو شگافیوں اورالزامات کا دندان شکن جواب دے سکتا ہو۔اس دور میں ہندو اخبارات کا کام صرف اورصرف حضرت قائد اعظم کے کردار پر کیچڑ اچھالنا اور مسلم لیگ کی مخالفت کرنا تھا۔یہ وہ حالات تھے جنہیں دیکھ کر حمید نظامی کا دل کڑھتا تھا، ان کی روح تڑپ تڑپ جاتی تھی اور انکے بازوؤں کی مچھلیاں کچھ کرنے کو بے تاب ہو جاتی تھیں اور پھرتاریخ ِ عالم نے دیکھا کہ اس حریت پسند اور حمیت و غیرت کے پتلے کی یہ دیرینہ خواہش جلد ہی بارآور ہوگئی اور 29 مارچ 1940کو ’’نوائے وقت‘‘ پندرہ روزہ کے اجرا کے ساتھ ہی وہ میدانِ صحافت میں بنیے کے مقابل آ کھڑے ہو ئے جو جلد ہی منازلِ ترقی طے کرکے 15 نو مبر 1942 کو ہفت روزہ بن گیا اور پھر دوسال کے قلیل عرصے میں حمید نظامی کی شبانہ روز محنت کے سبب 22 جولائی 1944میں نوائے وقت روز نامہ بن گیا۔
حمید نظامی کو کم سے کم اور آسان سے آسان الفاظ میں اپنی بات کہنے کا ملکہ حاصل تھا۔ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کے اخبار کی بے حد مقبولیت کی وجہ ان کی وسیع النظری تھی۔پھر ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ صحافت کا مقصد ادبی ذوق کی تسکین نہیں ہے، یہ تو قارئین کو حالات و واقعات سے با خبر رکھنے کا ذریعہ ہے۔قارئین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کم پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے صحافتی زبان ایسی ہونی چاہیے جسے ہر خاص وعام سمجھ سکے۔ یہ خوبی ان کے اداریوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ جو بھی اداریہ لکھتے تو قارئین پڑھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کی پاداش میں اپریل 1951 میں دولتانہ وزارت کے عہد میں نوائے وقت کا ڈکلر یشن منسوخ کردیا گیالیکن ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آنے پائی اور اپنے مشن کو ’’جہاد‘‘ اور بعد ازاں ’’نوائے پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم سے جاری رکھا یہاں تک کہ حکومت کو مجبوراً ایک سال بعد ڈکلریشن بحال کرنا پڑا۔
حمید نظامی نے ہر دور میں چاہے وہ جمہوری ہو یا فوجی حق وصداقت اور جرأت و بے باکی کا دامن ہاتھ نہ چھوڑا۔1958 ء سے 1962ء یعنی موت تک ایوبی آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔ ان کے اداریے مستند و معتبر، اعتدال و استدلال، جرأت و بیباکی، اختصار و جامعیت، سلاست وتسلسل اور متنوع مضوعات پر مشتمل ہوتے تھے۔ ڈاکٹر محمد باقر رضوی نی اپنے مضمون ’نوائے وقت ایک عہد ساز اخبار‘ جو 22جولائی 1969ء کو شائع ہوا،میں لکھا ہے:
’’اگر صرف نوائے وقت کے اداریوں کو جمع کرکے ان کا جائزہ لیا جائے تو تحصیل ِ پاکستان اور پاکستان کو قائم رکھنے کی مساعی کی ایک مستند تاریخ مرتب ہو سکتی ہے اور ان افراد اور ان تحریکوں کی نشان دہی بھی ہو سکتی ہے جنہوں نے پاکستان کو برباد کرنے میں کسر اٹھا نہ رکھی۔‘‘حمید نظامی ایک کہنہ مشق اداریہ نویس تھے جنہیں قلم پر مکمل کنٹرول تھا۔ ان کے اس وصف پر اور نوائے وقت پر تبصرہ کرتے ہوئے صدقِ جدید میں 6 جون 1958 ء کو مولانا عبدالماجددریاآبادی نے لکھا:
’’نوائے وقت اردو روزناموں میں بڑی حد تک ایک معیاری پرچہ ہے۔ زبان صحیح، سلیس، شگفتہ،عوامیت، بازاریت اور ابتذال سے ہمیشہ بلند۔۔۔اپنے اخباری مقالوں کی طرح وہ گفتگو میں بھی ماشاء اللہ وزن اور توازن دونوں پر قادر ہیں۔‘‘
اردو صحافت کے اس درخشاں ستارے نے 25 فروری کی صبح اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
خدا تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
٭…٭…٭

مزیدخبریں