حمید نظامی مرحوم کی چند یادیں

Feb 25, 2020

ڈاکٹر عبدالسلام خورشید

حمید نظامی میرے دوست تھے۔ عنفوان شباب میں تعلقات شروع ہوئے اور تادم مرگ جاری رہے۔ اس دوران نشیب و فراز بھی آئے چشم کیں بھی ہوئیں۔ ناراضگی نے انقطاع تعلق کا روپ بھی لیا لیکن پرانی دوستیاں سخت جان ہوتی ہیں اس لئے محبت پھر عود کر آتی اور تعلقات بحال ہوتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے کبھی لڑائی ہوئی ہی نہیں اور حمید نظامی کی زندگی کے آخری تین سالوں کے دوران میں تو خوب گاڑھی چھنتی رہی۔ کالج میں وہ مجھ سے ایک سال سینئر تھے لیکن عمر میں غالباً تین چار سال زیادہ۔ وہ ایک ذہین اور قابل طالب علم تھے۔ پڑھائی میں اتنے اچھے کہ انعام پر انعام پاتے تھے اور تقریر میں اتنے مشاق کہ مناظروں میں بڑے بڑے سینئر طلبا کو ہرا دیتے تھے۔ انہیں لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ پہلے کالج میگزین ’’کریسنٹ‘‘ میں مزاحیہ مضامین لکھتے رہے۔ پھر مشہور ادبی رسالے ’’ہمایوں‘‘ کا آسرا لیا۔ لی کاک کے مزاحیہ مضامین اردو میں منتقل کئے۔ چیخوف اور ٹالسٹائی کے افسانوں کا ترجمہ کیا۔ صحافت کا بہت شوق تھا‘ ایک صاحب نے ’’ساربان‘‘ کے نام سے ایک سیاسی ماہنامہ نکال رکھا تھا۔ حمید نظامی اس کے مدیر معاون بن گئے لیکن بلامعاوضہ اور محض شوق کی خواطر‘ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل اور تنظیم میں ہم دونوں برابر کے شریک تھے۔ دونوں مسلم لیگی تھے۔ کانگرسی سیاست میں جب ہندو فرقہ پرستی بہت نمایاں ہو گئی تو ہم دونوں کے خیالات میں انقلاب آگیا اور اسی انقلاب کے بطن سے پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے جنم لیا۔حمید نظامی مسلم لیگ کی طرف مائل ہوئے۔ اس کا آغاز مسلم طلبہ کی اس تحریک سے ہوا جو 1937ء میں ہم دونوں نے شروع کی۔ اب سیاست نگاری اور سیاسی خطابت کا سلسلہ جاری ہوا۔ انہوں نے مسلم طلبہ کی تحریک و تنظیم کے مخالفین کے جواب میں کئی سیاسی بیان مرتب کئے جو مختلف ناموں سے اخباروں میں چھپتے رہے اور سچ پوچھئے تو 1938-39ء میں پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے مقابلے پر پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن زیادہ سرگرم تھی۔ اس دور میں حمید نظامی کی سیاسی خطابت کے جوہر کھلے۔ انہوں نے لاہور‘ امرتسر‘ لدھیانہ‘ جالندھر اور گوجرانوالہ میں طلبہ کے جلسوں میں جو تقریریں کیں وہ متوازن بھی تھیں اور مدلل بھی اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو بعد میں ان کی اداریہ نگاری میں نمایاں ہوئیں۔اسی سال کا ذکر ہے کہ ہم لوگوں کو حضرت علامہ اقبالؒ کی خدمت میں دو چار بار حاضر ہونے کا موقع ملا۔ وہیں سے حقیقت میں مدد ملی اور اس کی بدولت ایمان میں پختگی آئی۔
اسلامیہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد حمید نظامی نے ایف سی کالج میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لے لیا۔ یہ زمانہ سیاست سے قدرے علیحدگی کا تھا اس لئے وہ اجتماعی سرگرمیوں سے کچھ دور رہے۔ بہرحال مجھے اتنا یاد ہے کہ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا لاہور سیشن ہوا تو وہ میرے ساتھ مندوبین کی صف میں تشریف فرما تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے بڑے بھائی ڈاکٹر شبر حسن بھی وہیں موجود تھے۔ جن سے حمید نظامی کی گہری دوستی تھی۔ حمید نظامی کو تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے بڑے پاپڑ بیلٹنے پڑے۔ مولانا چراغ حسن حسرت کے ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ میں ایک مزاحیہ مضمون بھی لکھ دیا۔ 23 مارچ 1940ء کو پندرہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ جاری کیا چند دوستوں کی معیت میں یہ ننھا منا اخبار نکالا۔ اسکے کل اخراجات کوئی چالیس پچاس روپے ماہانہ تھے جو احباب اپنی جیب سے دیتے تھے اور ادارت کے فرائض حمید نظامی کے سپرد تھے۔ ابتدائی دور میں یہ اخبار سیاسی کم اور ادبی زیادہ تھا اسی دوران میں مسلمانوں نے ایک خبر رساں ادارہ اورئینٹ پریس آف انڈیا کے نام سے قائم کیا۔ میاں مشتاق احمد گورمانی سے خصوصی رابطہ تھا۔ انہی کے مشورے سے حمید نظامی اسکے دفتر لاہور کے منیجنگ ایڈیٹر بن گئے اور اسکے ساتھ ہی ’’نوائے وقت‘‘ کو بھی ہفت روزہ کا روپ دے دیا اور اسکی تقطیع روزانہ اخبارات کے برابر ہو گئی اور ’’نوائے وقت‘‘ مسلم لیگ کا غیر سرکاری اور آزاد ترجمان بن گیا۔ اسی دوران میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ایک دفعہ پھر آئے۔ صدر بنے اور قائداعظم کے ساتھ رابطہ پیدا کیا اور اسکے بعد ایک آدھ مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاسوں میں دھڑلے دار تقریریں بھی کیں لیکن جب جولائی 1944ء میں حامد محمود کی رفاقت میں ’’نوائے وقت‘‘ کو روزنامہ بنایا تو تقریریں چھوڑ دیں اور صرف صحافت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

مزیدخبریں