حمید نظامی:مردِ صحافت و جمہوریت

پاکستان کی تحریک کا آغاز ہوا تو صحافت پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔مسلمانوں کی ترجمانی مولانا ظفر علی خان کا اخبار ’’زمیندار‘‘ کررہا تھا۔حمید نظامی نے قائداعظمؒ کے فرمان کے مطابق ’’ نوائے وقت‘‘ کا اجراء کیا اور جلد ہی ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل کر لیا۔حمید نظامی قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کا ترجمان بن کر سامنے آئے اور انہوں نے پوری دیانتداری اور جرات سے ہندو صحافت کا مقابلہ کیا۔حمید نظامی نے اداریے کو ایک نئی طرہ دی۔ وہ مسلمانان برصغیر کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتے تھے۔
تحریک آزادی میں بہت سے اخبارات و رسائل نے حصہ لیا ۔ ہندو اخبارات کا مسلم اخبارات کے خلاف بنائے گئے مضبوط محاذ کو بے اثر بنانا مسلم صحافت کے لئے ایک چیلنج تھا۔ ایک طرف مسلم لیگ کی تنظیم نو کا کام تھا تو دوسری طرف مسلمانوں کو یکجا کرنے کا کٹھن کام بھی حمید نظامی کے ذمہ تھا۔ 1940ء کا دور نہ صرف مسلمانوں بلکہ مسلم لیگ اور مسلم پریس میڈیا کے لئے بھی بے حد نازک تھا۔ ہندو پریس نے قرارداد لاہور کی انتہائی مخالفت کی اور قیام پاکستان کے مطالبے کو ہر طرح سے سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اسی دور میں جب 23 مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور پیش ہوئی اسی وقت نوائے وقت ایک بیدار مغز مسلمان نوجوان حمید نظامی کی زیر ادارت 15 روزہ اخبار کی شکل میں میدان صحافت میں اترا۔ اردو اخبارات میں یہ واحد اخبار تھا جس نے مسلمانوں اور ان کی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے نقطہ نظر کی کامیابی کے ساتھ موثر ترجمانی کی۔ اس کے بعد چونکہ اردو صحافت میں کوئی ایسا روزنامہ اخبار نہ تھا جو قائداعظمؒ کی پالیسیوں کی حمایت کرتا۔ اس ضرورت کے پیش نظر قائداعظمؒ کے حکم اور پیغام کے ساتھ نوائے وقت29 مارچ 1944 ء سے روزنامہ کی شکل میں شائع ہونے لگا ۔ حمید نظامی کی محنت نے جلد ہی نوائے وقت کو مسلمانوں کا ایک مقبول اخبار بنا دیا۔یہ تحریک آزادی میں مسلمانوں کا ترجمان اخبار ثابت ہوا۔قیام پاکستان کے بعد حمید نظامی استحکام پاکستان کیلئے سرگرم ہوگئے۔حمید نظامی مرحوم پاکستان میں اصولوں پر مبنی صحافت کے بانی اور اعلیٰ فکر و کردار کے مالک ایسے انسان تھے جنہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔آپ نے اپنے قلم کے ذریعے بے مثال قومی و ملی خدمات انجام دیں۔حمید نظامی نے اپنے قلم کے ذریعے بے مثال قومی و ملی خدمات انجام دیں۔ آمروں کا بھی بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ حمید نظامی نے بھرپور جدوجہد سے صحافت کو ایسا مقام بخشا کہ بڑے بڑے ڈکٹیٹروں اور ظالم حکمرانوں کی’’ نوائے وقت‘‘ کے اداریوں سے نیندیں اڑ گئیں۔ حمید نظامی سمجھتے تھے کہ پاکستان کی بقاء کا دارومدار جمہوری روایات و اقدار کی سربلندی پر ہے‘ لہٰذا وہ پاکستان اور جمہوریت کو ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تصور کرتے تھے۔ جب فوجی آمر جنرل محمد ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا اور جابرانہ قوانین کے ذریعے پریس کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا‘ تب بھی حمید نظامی تادمِ آخر اس کی مخالفت پر ڈٹے رہے حتیٰ کہ وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہوگئے اور 25فروری 1962 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ بلاشبہ قائداعظمؒ کے سچے پیروکار اسی اولوالعزمی اور استقامت کے مالک ہوا کرتے ہیں۔حمید نظامی مرحوم اور روزنامہ نوائے وقت کا ذکر ادھورا رہتا ہے جب تک ڈاکٹر مجید نظامی کا ذکر خیر نہ کیا جائے۔ وہ حمید نظامی مرحوم کے برادر حقیقی اور جانشین ایڈیٹر تھے۔ انہیں نوائے وقت کے دورِ ثانی یا دورِ عروج کا بانی کہا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ جب انہوں نے نوائے وقت کی باگ ڈور سنبھالی تو اپنی خداداد صحافتی و انتظامی صلاحیتوں کے بل بوتے اس ادارے کو بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا۔ اْنہوں نے ہر جابر سلطان کے سامنے بڑی بے باکی سے کلمہ حق کہا اور کوئی دباؤ یا لالچ انہیں اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہونے پر مجبور نہ کرسکا۔ حمید نظامی اور مجید نظامی میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ ہر چیز کو اس پیمانے پر جانچتے تھے۔
تحریک پاکستان کے دوران حمید نظامی کا کردار کسی بڑے لیڈر سے کم نہیں ہے، انہیں قائداعظمؒ کا اعتماد حاصل تھا۔ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد نظریہ پاکستان ،قیام پاکستان کے مقاصد اور جمہوریت کے فروغ کیلئے جان توڑ کوششیں کیں۔ ملک میں صحت مند اپوزیشن کے قیام کیلئے بھی کردار ادا کیا۔حمید نظامی کی روح نے قفس عنصری سے پرواز کیاتو وہ آمریت کے خلاف مضبوط اپوزیشن کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرچکے تھے جسے ان کی وفات کے بعد مجید نظامی نے مضبوط تر کرکے ایوب خان کے خلاف اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے ان کے خلاف مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنوا دیا۔

ای پیپر دی نیشن