نکتہ اور رزق

حیرت ہے کہ اس دنیا کو آگ لگانے والے وہی لوگ ہیں جو خود اس دنیا میں رہتے ہیں جبکہ اس دنیا کا خالق بڑی دیر سے یہ تماشہ دیکھ رہا ہے کہ حرص و ہوس کے یہ پجاری آخر کب تک یہ آگ اور لہو کا کھیل کھیلتے رہیں گے۔ آخر کار اس جہان رنگ و بو کو تو سمیٹ ہی لیا جانا ہے۔ یہ دن محشر کا ہو گا جب بدکاروں کو ان کے برے اعمال کی سزا اور نیک کاروں کو جزا دی جائے گی۔بس تھوڑا انتظار کیجئے۔ یہ ایک مہلت ہے، اس عرصے میں اگر ہم نے اپنے معاملات بہتر کر لئے تو دنیا کا نقشہ بدل جائے گا۔ایک نیک کار خاتون جنت میں پہنچی تو اسے عالیشان محل سمیت بے شمار نعمتیں عطا کی گئیں۔فرشتوں نے نہایت ادب سے پوچھا، اے جنت مکیںمحترمہ ! اگر کوئی حکم ہو تو ارشاد فرمائیے۔جس پر خاتون نے خواہش ظاہر کی کہ ان کا نکاح کسی مولوی سے کر دیا جائے جس پر فرشتوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے تعمیل خواہش کی نوید دی اور چلے گئے۔پھر چند دن کے بعد خاتون  نے وہی خواہش دہرائی تو دوبارہ حاضر ہونے کا وعدہ کر کے فرشتے غائب ہو گئے۔ یہ کیفیت کئی روز تک جاری رہی۔ خاتون خواہش کرتیں۔ فرشتے حاضر ہوتے اور محترمہ اپنی خواہش کی تکمیل نہ ہونے پر قدرے ناراض ہوتیں۔اب کی بار فرشتے آئے تو خاتون نے جھلا کر کہا کہ اتنا سا معمولی کام بھی آپ سے ابھی تک نہیں ہو سکا تو فرشتوں نے ندامت سے سرجھکاتے ہوئے عرض کیا کہ محترمہ ابھی تک کوئی ایسا نیک سیرت مولوی جنت میں آیا ہی نہیں۔ آپ اگر حکم دیں تو دوسری طرف دیکھ لیں۔یہ ایک لطیف گفتگو تھی۔اہل مولویان سے معذرت کے ساتھ کہ بیشتر مولوی نما محض اپنے حلیے سے پہچانے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔تاہم اس لباس میں کئی ایسے اللہ والے موجود ہیں جو رب کی بندگی کے ساتھ ساتھ بندوں کی بلاتمیز وتخصیص خدمت کرنے کو ایمان کا درجہ دیتے ہیںکہ دنیا بے شمار خرافات کے باوجود رہنے کے قابل ہے اور اس سے یہ بھی لگتا ہے کہ خدا ابھی دنیا سے گیانہیں۔
ہمارے ایک مہربان محمد محی الدین باہو قادری نے کامیابی کا راز بتایا ہے جوآپ کے سامنے کھولا جا رہا ہے۔اس یقین کے ساتھ کہ اگر آپ نے اس پر عمل کیا اور اپنے حلقۂ اثر میں اس کو تقسیم کیا تو یقین جانیے یہ خیر وبرکت بہت دور تک پھیل جائے گی۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے پچھلے دنوں ایک شخص کا انٹرویو سنا،انٹرویو دینے والا دنیا کی کسی بڑی یونیورسٹی یا کالج تو دور کی بات شاید مڈل سکول تک بھی نہ گیا ہو گا، مگر کامیابی کا وہ راز بتا گیا کہ شاید ہی کوئی ڈگری والا کسی کو بتا پائے۔وہ شخص ایک بکریاں پالنے والا چھوٹا سا فارمر ہے۔اس سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہوتواس نے کہا کہ میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزارروپے بنتا ہے، مگر کیمرہ مین نے جب بکریوں کا ریوڑ دیکھا تو اس میں تیرہ بکریاں تھیں۔اب اس نے تیرہویں بکری کے بارے میں پوچھا کہ یہ آپ نے گنتی میں شامل کیوں نہیں کی،تو بکری پال کاجو جواب تھا وہ کمال کا تھا اور وہی جملہ دراصل کامیابی کا راز ہے۔اس نے کہا کہ میں بارہ بکریوں سے چھ لاکھ روپے منافع حاصل کرتا ہوں جبکہ اس تیرہویں بکری کے دو بچے پیداہوتے ہیں جن میں سے ایک کی میں قربانی کرتا ہوں اور دوسرا کسی مستحق غریب کو دے دیتا ہوں،اس لئے یہ بکری میں نے گنتی میں شامل نہیں کی۔گویا یہ تیرہویں بکری بارہ بکریوں کی محافظ ہے اور باعث خیر وبرکت ہے۔یقین کریں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کے فلسفے ایک طرف اور اس بکریاں پالنے والے نوجوان کا جملہ ایک طرف اپنا بڑا مقام رکھتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس بکروال نوجوان کی طرح اپنی حلال کمائی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یقین جانئے رزق کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے جو عام لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔ جس وقت آپ سو رہے ہوں اوراچانک ایک دم سے بغیر الارم کے نماز کیلئے بیدار ہو جائیں تو یہ بیداری بھی رزق ہے چونکہ بہت سارے لوگ بیدار نہیں ہوتے۔ اسی طرح جس وقت آپ کسی مشکل میں گِھر جاتے ہیں تو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کوایک خاص صبر عطا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مشکل آسان ہو جاتی ہے تو یہ صبر بھی رزق ہے۔ گھر میں آپ ماں باپ کو ایک گلاس پانی پلاتے ہیں نیکی کی یہ جو توفیق حاصل ہوئی ہے یہ بھی رزق ہے۔ نماز کے دوران آپ کی توجہ صرف اللہ کی طرف ہوتی ہے اور پھر کچھ لمحوں کیلئے ہی سہی لیکن بیحد خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے رب سے تنہائی میں ملاقات ہوتی ہے تو یہ خشوع وخضوع بھی خاص رزق ہے۔ ایک مدت سے اپنے کسی عزیز سے آپ بے خبر ہیں اور اچانک ان کی یاد آجاتی ہے، آپ فون اٹھاتے ہیں اور ان کا حال احوال دریافت کرتے ہیں تو یہ صلہ رحمی بھی رزق ہے۔ اصل رزق، نیکیوں کا رزق ہے۔ گاڑی، تنخواہ، مال و دولت وغیرہ مال کا رزق ہے جو ممکن ہے خداوندتعالیٰ سب کو عطا کرے، اپنے دشمن کو بھی، لیکن نیکیوں کا رزق اللہ صرف اپنے نیک بندوں کو عطا کرتا ہے۔ آخری نکتہ آپ کے عزیز، آپ کے رشتہ دار، آپ کے والدین کا سایہ آپ کے سر پر برقرار ہے تو یہ بھی سب سے بڑا رزق ہے ان نعمتوں کی قدر کیجیے۔

ای پیپر دی نیشن