دنیا میں بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو صحیح معنوں میں کسی قوم، کسی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں اور ایسی ہی چند شخصیات میں سے ایک بڑی ہی باوقار شخصیت محسن صحافت، بانی نوائے وقت محترم حمید نظامی کی ہے۔آپ 3 جنوری 1918 ء کو سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ انکے مقاصد اور نظریات میں بلا کا استحکام تھا۔ یعنی طاقتور کے مقابلے میں کمزور کی حمایت اور وطن پرستی کے گہرے جذبات انکے نظریات کے نمایاں عناصر تھے۔ حمید نظامی ایسے صحافی تھے جنہوں نے اُردو صحافت کے دھارے کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ حکیم الامت ، مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ اور بانی پاکستان بابائے قوم قائداعظمؒ کے پیرو کار تھے۔
ڈاکٹر فوزیہ اسحق کی کتاب ’’بحیثیت صحافی حمید نظامی‘‘ سے راجہ احمد خان نے 1949 ء کا ایک واقعہ بتایا ’’آج یونیورسٹی میں ایک میٹنگ ہے جس میں حمید نظامی ،علامہ اقبال کے اشعار میں ’’پاکستان کی منزل مقصود‘‘ پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ میٹنگ چند اصحاب پر مشتمل تھی جو پاکستان کے مستقبل استحکام اور بقا کے متعلق دردمندی اور خلوص سے غور وفکر کیا کرتے تھے۔ اس بزم کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے جب مقرہ وقت پر اجلاس شروع ہوا اور نظامی صاحب نے اپنا مضمون پڑھنا شروع کیا تو خیالات کی روانی، خلوص کی فراوانی اور غوروفکر کی گہرائی نے سب کو ہمہ تن گوش بنا دیا۔ نظامی صاحب، علامہ اقبال کے فارسی، اُردو کے اشعار سے اسلام، ملت اسلامیہ اور پاکستان کے مفہوم کو بڑے دل نشین پیرائے میں واضح کر رہے تھے۔قوم وملک کے درد ناک حالات، ملت اسلامیہ کی ابتری، مرد مسلمان کی زبوں حالی اور لیڈروں کی اخلاقی پستی کا ذکر آیا تو جذباتی ہو گئے۔ ان کی آوازلڑکھڑا رہی تھی، آخر جذبات کا دھارا بہہ نکلا اور نظامی صاحب رونے لگے ۔ہم میں سے ہر ایک کی آنکھ اشک بار تھی،آخر بڑی مشکل سے انہوں نے اپنے آپ پر قابوپایا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:’’ہمیں آج جرات مندی اور بے باکی کی سخت ضرورت ہے۔ پاکستان بن گیا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کی آرزو پوری ہو گئی، قائداعظم کی اچانک وفات کی وجہ سے فتنے سر اٹھانے لگے ہیں۔ غلط کار اور غلط کیش رہنما ملک وقوم کی بہبودی سے بے نیاز اپنی کرسیوں کی حفاظت کے لیے سر گرم عمل ہیں،ذاتی منفعت نے انہیں اندھا کر دیا ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ اقبال کے کلام کو نوجوانوں کے دلوں میں بٹھایا جائے تاکہ اقبال کے مرد مومن تیار ہوں اور ملک وقوم کی حفاظت کر سکیں، ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق کہہ سکیں اور کسی خوف، تحریص، دھمکی یا لالچ سے مرعوب نہ ہوں۔‘‘
نظامی صاحب طالب علمی کے دوران اسلامیہ کالج لاہور کے مجلہ ’’کریسنٹ‘‘ کے 1935 ء میں نائب مدیر مقرر ہوئے ۔ اسکے علاوہ آپ نے مجلہ ’’فروغ مشرق ‘‘ سے بھی وابسطہ رہے۔ اسکے بعد نظامی صاحب نے ایک سیاسی اور معلوماتی ماہنامہ ’’ساربان‘‘ میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر (اعزازی) طور پر کام کیا۔ قائداعظمؒ نے ایک تقریب کے دوران حمید نظامی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’میں چاہتا ہوں لاہور سے ایک ایسا اخبار نکالا جائے جو حقیقت میں سو فیصد مسلم لیگ تحریک پاکستان کی ترجمانی کرے اور میری خواہش ہے کہ یہ اخبار تم نکالو‘‘ اخبار کی اشاعت سے قبل حمید نظامی صاحب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلی مرتبہ 1937 ء میں پھر دوسری بار 1943 ء اور پھر آخری بار 1944 ء میں صدر منتخب ہوئے۔ آپ بانی پاکستان قائداعظمؒ کے چند مخلص جانثاروں میں سے ایک تھے۔ اسی بنا پہ آپ نے قائداعظمؒ کے حکم پر پہلی بار نوائے وقت کا آغاز ’’پندرہ روزہ‘‘ سے کیا اس کی اشاعت کے کچھ ہی سال بعد پندرہ نومبر 1946 ء کو اسے ’’ویکلی اخبار‘‘ بنا دیا گیا۔ جو حقیقی معنوں میں اس دور کی ایک روندی، کچلی ہوئی مسلم امہ کی آواز کو بلند کرنے کے لیے نکالا گیا۔ اس دور میں نوائے وقت کی اشاعت پر ہندوکانگریس اور ہندو اخبارات کی طرف سے نہ صرف مخالفت شروع ہوئی بلکہ نوائے وقت کے ارباب اختیار پر ظلم وستم کے طرح طرح کے پہاڑ توڑے گئے۔ حمید نظامی نے سب مشکلات اور دشمنوں کا مقابلہ ڈٹ کر کیا۔ ہفت روزہ نوائے وقت کو چند ہفتوں کی اشاعت کے بعد روزنامہ بنا دیا گیا اور جلد ہی یہ ایک روزنامے کی شکل میں مسلم امہ کی آواز بنتا ہوا مسلسل باقاعدگی سے شائع ہونے لگا۔ بانی پاکستان قائداعظمؒ کے افکار واذکار کا امین، حالاتِ حاضرکا آئینہ دار، منافقوں کے لیے خنجر، مظلوم قوم کی ایک صدا، صحافتی دنیا کا ایک روشن تابندہ ستارہ، تاریخ پاکستان کی تصویر، غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے لوگوں میں کلمہ حق کو بلند کرنے والا حقیقت کا ترجمان ، قائد اور اقبال کی سوچوں کا آئینہ دار روزنامہ نوائے وقت صحافتی دنیا کا وہ واحد قومی اخبار ہے جو صحیح معنوں میں پاکستانی قوم کا اپنا اخبار ہے۔آپ کی وفات 24 فروری1962 ء میں ہوئی۔ آپ نے ہمیشہ جابر سلطان کے سامنے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلمہ حق کی صدا کو بلند کیا۔حمید نظامی اُردو صحافت میں حق وصداقت کا نقیب اول اپنے نقوش چھوڑ کرر اہی ملک عدم ہوا۔