حمید نظامی میرے دوست تھے۔ عنفوان شباب میں تعلقات شروع ہوئے اور تادم مرگ جاری رہے۔ اس دوران نشیب و فراز بھی آئے چشمکیں بھی ہوئیں۔ ناراضگی نے انقطاع تعلق کا روپ بھی لیا لیکن پرانی دوستیاں سخت جان ہوتی ہیں اس لئے محبت پھر عود کر آتی اور تعلقات بحال ہوتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے کبھی لڑائی ہوئی ہی نہیں اور حمید نظامی کی زندگی کے آخری تین سالوں کے دوران میں تو خوب گاڑھی چھنتی رہی۔ کالج میں وہ مجھ سے ایک سال سینئر تھے لیکن عمر میں غالباً تین چار سال زیادہ۔ وہ ایک ذہین اور قابل طالب علم تھے۔ پڑھائی میں اتنے اچھے کہ انعام پر انعام پاتے تھے اور تقریر میں اتنے مشاق کہ مناظروں میں بڑے بڑے سینئر طلبا کو ہرا دیتے تھے۔ انہیں لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ پہلے کالج میگزین ’’کریسنٹ‘‘ میں مزاحیہ مضامین لکھتے رہے۔ پھر مشہور ادبی رسالے ’’ہمایوں‘‘ کا آسرا لیا۔ لی کاک کے مزاحیہ مضامین اردو میں منتقل کئے۔ چیخوف اور ٹالسٹائی کے افسانوں کا ترجمہ کیا۔ صحافت کا بہت شوق تھا‘ ایک صاحب نے ’’ساربان‘‘ کے نام سے ایک سیاسی ماہنامہ نکال رکھا تھا۔ حمید نظامی اس کے مدیر معاون بن گئے لیکن بلامعاوضہ اور محض شوق کی خاطر پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل اور تنظیم میں ہم دونوں برابر کے شریک تھے۔ دونوں مسلم لیگی تھے۔ کانگرسی سیاست میں جب ہندو فرقہ پرستی بہت نمایاں ہو گئی تو ہم دونوں کے خیالات میں انقلاب آگیا اور اسی انقلاب کے بطن سے پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے جنم لیا۔
حمید نظامی کے سیاسی عقائد ایک مسلسل ارتقائی عمل کا نتیجہ تھے۔ کالج کی ابتدائی زندگی میں وہ کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے نظریات کو پسند کرتے تھے‘ بلکہ ایک آدھ بار انہوں نے گاندھی ٹوپی بھی پہنی جو اسلامیہ کالج میں کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی تھی۔ اس مختصر سے دور میں وہ جے پرکاش نارائن اور یوسف مہر علی کو اپنا رہنما قرار دیتے تھے‘ لیکن جب حالات بدلے کانگریس اور سوشلسٹ پارٹی دونوں کے نظریات کے عملی پہلو کی یکسانیت واضح ہوئی تو حمید نظامی مسلم لیگ کی طرف مائل ہوئے۔ اس کا آغاز مسلم طلبہ کی اس تحریک سے ہوا جو 1937ء میں ہم دونوں نے شروع کی۔ اب سیاست نگاری اور سیاسی خطابت کا سلسلہ جاری ہوا۔ انہوں نے مسلم طلبہ کی تحریک و تنظیم کے مخالفین کے جواب میں کئی سیاسی بیان مرتب کئے جو مختلف ناموں سے اخباروں میں چھپتے رہے اور سچ پوچھئے تو 1938-39ء میں پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے مقابلے پر پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن زیادہ سرگرم تھی۔ اس دور میں حمید نظامی کی سیاسی خطابت کے جوہر کھلے۔ انہوں نے لاہور‘ امرتسر‘ لدھیانہ‘ جالندھر اور گوجرانوالہ میں طلبہ کے جلسوں میں جو تقریریں کیں وہ متوازن بھی تھیں اور مدلل بھی اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو بعد میں ان کی اداریہ نگاری میں نمایاں ہوئیں۔اسی سال کا ذکر ہے کہ ہم لوگوں کو حضرت علامہ اقبالؒ کی خدمت میں دو چار بار حاضر ہونے کا موقع ملا۔ وہیں سے حقیقت میں مدد ملی اور اس کی بدولت ایمان میں پختگی آئی۔
اسلامیہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد حمید نظامی نے ایف سی کالج میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لے لیا۔ یہ زمانہ سیاست سے قدرے علیحدگی کا تھا اس لئے وہ اجتماعی سرگرمیوں سے کچھ دور رہے۔ بہرحال مجھے اتنا یاد ہے کہ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا لاہور سیشن ہوا تو وہ میرے ساتھ مندوبین کی صف میں تشریف فرما تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے بڑے بھائی ڈاکٹر شبر حسن بھی وہیں موجود تھے۔ جن سے حمید نظامی کی گہری دوستی تھی۔ حمید نظامی کو تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے بڑے پاپڑ بیلٹنے پڑے۔ ڈاکٹر سیتہ پال کے روزنامہ ’’نیشنل کانگرس‘‘ میں محض قوت لایموت کی خاطر نوکری کرنی پڑی لیکن جب اختلاف رائے نے شدید نوعیت اختیار کر لی تو مستعفی ہو گئے اور اس پر مولانا چراغ حسن حسرت کے ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ میں ایک مزاحیہ مضمون بھی لکھ دیا۔ 23 مارچ 1940ء کو پندرہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ جاری کیا چند دوستوں کی معیت میں یہ ننھا منا اخبار نکالا۔ اسکے کل اخراجات کوئی چالیس پچاس روپے ماہانہ تھے جو احباب اپنی جیب سے دیتے تھے اور ادارت کے فرائض حمید نظامی کے سپرد تھے۔ ابتدائی دور میں یہ اخبار سیاسی کم اور ادبی زیادہ تھا اسی دوران میں مسلمانوں نے ایک خبر رساں ادارہ اورئینٹ پریس آف انڈیا کے نام سے قائم کیا۔ میاں مشتاق احمد گورمانی سے خصوصی رابطہ تھا۔ انہی کے مشورے سے حمید نظامی اسکے دفتر لاہور کے منیجنگ ایڈیٹر بن گئے اور اسکے ساتھ ہی ’’نوائے وقت‘‘ کو بھی ہفت روزہ کا روپ دے دیا اور اسکی اشاعت روزانہ اخبارات کے برابر ہو گئی اور ’’نوائے وقت‘‘ مسلم لیگ کا غیر سرکاری اور آزاد ترجمان بن گیا۔ اسی دوران میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ایک دفعہ پھر آئے۔ صدر بنے اور قائداعظم کے ساتھ رابطہ پیدا کیا اور اسکے بعد ایک آدھ مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاسوں میں دھڑلے دار تقریریں بھی کیں لیکن جب جولائی 1944ء میں حامد محمود کی رفاقت میں ’’نوائے وقت‘‘ کو روزنامہ بنایا تو تقریریں چھوڑ دیں اور صرف صحافت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
’’نوائے وقت‘‘ بہت ہر دلعزیز اخبار تھا کیونکہ وہ ایسے وقت پر روزنامے کی حیثیت سے وجود میں آیا جب پنجاب کے باقی مسلمان جرائد پاکستان کی حمایت کے باوجود مسلم لیگ کی صوبائی قیادت کی مکمل حمایت نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک آزاد مسلک اختیار کر رکھا تھا ’’نوائے وقت‘‘ واحد اخبار تھا جو مسلم لیگ کے آفیشل نقطہ نگاہ کی حرف بہ حرف تائید کرتا تھا۔ لیگ نے وزارتی مشن کی تجاویز قبول کر لیں تو ’’نوائے وقت‘‘ نے اس کی تائید میں آواز بلند کی۔ لیکن باقی مسلمان اخباروں نے اسے مطالبہ پاکستان کی نفی سے تعبیر کیا۔ 1946ء کے عام انتخابات آئے تو ’’نوائے وقت‘‘ نے بڑے دھڑلے کے ساتھ لیگی امیدواروں کے حق میں کام کیا اور وہ پنجاب کا سب سے بڑا عوام پسند مسلمان اخبار بن گیا اور یہ حقیقت ہے کہ ’’ڈان‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ اس زمانے کے محبوب ترین روزنامے تھے۔ پاکستان بنا تو اشاعت کے اعتبار سے ’’زمیندار‘‘ سب سے بڑا اخبار تھا لیکن سیاسی اثر کے اعتبار سے ’’نوائے وقت‘‘ ایک بہت بڑی طاقت کہا جاتا تھا۔ یہ طاقت صحیح استعمال ہوئی یا غلط؟ یہ ایک متنازعہ فیہ مسئلہ ہے۔ 1949ء میں ممدوٹ وزارت اپنی بدعنوانیوں کی بناء پر برطرف ہو گئی تو حمید نظامی نے محسوس کیا کہ کسی موثر اپوزیشن کی عدم موجودگی میں صحافت کا فریضہ ہے کہ وہ ایک اپوزیشن کی حیثیت سے حکمران طبقے کا کڑا احتساب کرے۔ اس میں حمید نظامی کو طرح طرح کے مصائب بھی جھیلنے پڑے۔ ان میں میاں ممتاز دولتانہ کے ساتھ کشمکش خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ سے ایک ضمانت طلب ہوئی۔ ازروئے قانون اسکی رقم دس دن کے اندر اندر سرکاری خزانے میں جمع کرانی ضروری تھی کسی تکنیکی غلط فہمی کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا اور جب گیارہویں دن ضمانت کی رقم پیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ازروئے قانون ڈیکلریشن ساقط ہو چکا ہے۔ یہاں تک بات رہتی تو چنداں مضائقہ نہ تھا کیونکہ تازہ ڈیکلریشن داخل کیا جا سکتا تھا اور اس کی منظوری رسمی نوعیت کی حامل تھی لیکن وزارت نے ڈیکلریشن منظور کرنے میں تساہل سے کام لیا بلکہ یہ دھاندلی بھی کی کہ ایک صحافی مظفر احسانی کو اسی نام کا ڈیکلریشن دلا دیا۔ اب ایک طرف ’’نوائے وقت‘‘ کچھ دیر کی جبری بندش کے بعد ’’جہاد‘‘ کے نام سے نکلنے لگا اور دوسری طرف یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں مظفر احسانی ’’نوائے وقت‘‘ نہ جاری کر دیں ’’جہاد‘‘ جس پریس سے چھپتا تھا‘ اس پر حکومت نے دباؤ ڈالا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا اس پر ’’نوائے وقت‘‘ نے ایک مقامی روزنامے ’’نوائے پاکستان‘‘ کو اپنا لیا۔ آخر بعداز خرابی بسیار ’’نوائے وقت‘‘ اپنی اصل شکل میں نکلنے لگا لیکن اس رگڑے جھگڑے میں خاصا مالی ضیاع ہوا اور دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی ہوئی کیونکہ صحافت سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی مجلوں میں اس جھگڑے کا تذکرہ ہوتا رہا۔ حمید نظامی ان صحافیوں میں شامل تھے جو محض عوام کی ترجمان ہی نہیں‘ بلکہ رہنمائی کے بھی قائل تھے۔ سیاستدانوں نے اس پر کان نہ دھرے اور نتیجہ یہ ہوا کہ مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ مارشل لاء کے دور میں حمید نظامی کے سامنے دو راستے تھے۔ اول: مخالفت اور اس کے نتیجے میں بندش‘ دوم: اعتدال پسندانہ پالیسی اور جمہوریت کی بحالی پر زور۔انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور صدر ایوب کے بیانات کے ان حصوں پر زور دینا شروع کیا جن میں جمہوریت کی بحالی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں حمید نظامی بہت گھٹن محسوس کرتے اور چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی رنگ میں جمہوریت کے حق میں کوئی تحریک چلے۔ یوں تو حمید نظامی مزاح نگار بھی تھے اور ان کا کالم سرراہے خاصا مقبول تھا لیکن وہ بنیادی طور پر اداریہ نگار تھے۔
٭…٭…٭