دنیائے صحافت میںاپنی زندگی گزارنے والے ایماندار قلم کار کہتے ہیں ارضِ پاک میں محترم حمید نظامی اور مجید نظامی کے مقابلے کے صحافی خال خال ہی پیدا ہوئے ہیں۔ حمید نظامی کومیرے قائد محمد علی جناح ، دنیا ئے اسلام کے بڑے رہنماء نے ’’آتش نوا ‘‘ کے القاب سے نواز تھا ،کتابیں بولتی ہیں کہ برصغیرکے عظیم رہنماء قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے اسٹاف کو یہ ہدائت دے رکھی تھی کہ ’’نوجوان حمید نظامی جب بھی مجھ سے ملاقات کیلئے آئیں اگر میں سو بھی رہا ہوںتو مجھے اطلاع دی جائے ۔ اس عظیم شخصیت کی آج 59 ویں برسی ہے ،حمیدنظامی کی زمانہ طالب علمی سے ملاقاتوںکا سلسلہ علامہ اقبال اور دیگر اکابریں سے رہا جہاں سے کتابوںکے مطابق انکی قربت بانی پاکستان سے ہوئی ، بانی پاکستان نے نوجوان حمید نظامی میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کیلئے کاوشوں اور ولولہ انگیز سوچ کو دیکھتے ہوئے انہیں پاکستان کیلئے شروع کی گئی اپنی تحریک میں اہم مقام عطا کیا ، تحریک پاکستان کی جدوجہد کا حصہ بنتے ہوئے حمید نظامی مرحوم نے قائد محترم محمد علی جناح کی ہدائت پر پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا، اور ہندوئوںکے سامنے ڈٹ گئے ۔ہندو پریس بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تحریک پاکستان کی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کی بھر پور کوشش میں مصروف تھا
پندرہ روزہ نوائے وقت نے ہندو پریس کے زہر آلود پروپیگنڈا کا مدلل جواب دینے کے لئے مسلمانوں کے جذبات کی حقیقی نمائندگی کی۔ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے پیروکار کی حیثیت سے انہوں نے نہ صرف تحریک پاکستان میں جاندار کردار ادا کیا، بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ پندرہ روزہ نوائے وقت ، تحریک پاکستان کی ضروریات کے مطابق پندرہ روزہ سے ہفت روزہ ہوگیا ،مورخ لکھتے ہیں کہ جب 23 مارچ 1947ء کو قرارداد پاکستان کے موقع پر جلسہ گاہ میں لوگوںکے ہاتھوں میں پندرہ روزہ نوائے وقت تھا۔ بر صغیر کے مسلمانوں کو یقین ہوچلا تھا کہ اب قلم بھی میدان میں ہے جو ہندوئوں اور انگریزوں کی سازشوں کا مقابلہ کریگا اور مسلمانوں کیلئے علیحدہ مملکت بننے کے قیام میں رکاوٹیں دم توڑ دینگی۔
حمید نظامی مرحوم نے اپنی 47 سالہ مختصر زندگی میں نہ صرف اس دور کے مسلم لیگی حکمرانوں کے غیر جمہوری اقدامات کو چیلنج کیا بلکہ ایوب خان کے مارشل لاء بھی ڈٹ کر مخالفت کی۔ وہ 25فروری 1962کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ ایوبی آمریت کی روزنامہ نوائے وقت پر سختیاں ، صحافت اور قلم کو اپنی مرضی میں ڈھالنے کی آمرانہ کوششیں، جن کا سلسلہ گزشتہ ستر سالوں سے آج تک اس ملک میںجاری ہے ، قائد اور تحریک پاکستان کے ہروال دستے کے سپاہی حمید نظامی مارشل لائی آفات کا مقابلہ کرتے ہوئے ، جو حمید نظامی کی پاکستان کی نظریات سوچ کی مخالف سپاہی دل کے عارضے سے جانبر نہ ہو سکے۔اسکے بعد نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنیوالے نوائے وقت کی باگ ڈور ڈاکٹر مجید نظامی نے سنبھالی جو ا س وقت لندن میںزیر تعلیم تھے ،صحافت کی تربیت اور سوچ مجید نظامی نے اپنے بھائی حمید نظامی سے حاصل کی۔ حمید نظامی مرحوم کا جاری کیا جانے والا پندرہ روزہ نوائے وقت اس وقت تک ایک شجر سایہ دار درخت بن چکا تھا جسے ان کے چھوٹے بھائی مجید نظامی مرحوم نے مزید ترقی دی اور آج نوائے وقت گروپ وقار اور فخر سے صحافت کی دنیا میں سر اٹھائے کھڑا ہے۔مرحوم حمید نظامی کاپندرہ روزہ نوائے وقت اور تحریک پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوگئے۔ حمید نظامی نے نوائے وقت میں اپنے عالمانہ‘ ٹھوس‘ بامعنی اور بامقصد اداریوں کے ذریعے مسلمانان ہند کو صحیح فکری سمت دی اور قیام پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے کارکنوں کو رہنمائی بھی فراہم کرتے رہے۔ دو قومی نظریہ پر مبنی نظریہ پاکستان ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا اور اس نظریے کی بنیاد پر حصول پاکستان کیلئے وضع کئے گئے اصولوں سے اپنی صحافتی زندگی میں کبھی انحراف کیا‘ نہ کبھی ان اصولوں پر مفاہمت کی۔ قیام پاکستان کے بعد حمید نظامی نے نوائے وقت کو دو قومی نظریہ کی ترویج و حفاظت اور پاکستان کے استحکام کیلئے وقف کر دیا اور پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونیوالے اس ملک خداداد میں اسلامی اصولوں کے مطابق جمہوریت کے فروغ اور جمہوری حکمرانی کی تدریس و تلقین کو اپنے مشن کا حصہ بنایا۔ انہوں نے اپنے اچھوتے اندازِ تحریر و بیان کے ذریعہ بلاشبہ باوقار اور صاف ستھری آزاد صحافت کو پروان چڑھایا اور تحریک پاکستان کے مقاصد کو اجاگر رکھتے ہوئے دو قومی نظریے کی شمع کی لو کبھی مدھم نہ ہونے دی۔