لاہور (اپنے نامہ نگار سے) سرکاری ملازم کی بیوہ کی دوسری شادی پر بھی ملازمت برقرار رہے گی۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق لاہورہائیکورٹ کے ملتان بنچ نے دوسری شادی کرنے پر سرکاری ملازم کی بیوہ سے سرکاری نوکری واپس لینے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ محکمہ پاکستان پوسٹ میں خاوند کی وفات کے بعد کلرک کے عہدے پر بھرتی ہونے والی خاتون عاصمہ شہزادی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ انہیں محکمے نے نوکری سے اس لیے نکال دیا کہ انہوں نے شادی کر لی ہے۔ مدعیہ کے مطابق ان کے مرحوم شوہر عمر حیات محکمہ ڈاک میں چپڑاسی تھے۔ عاصمہ شہزادی نے 2017ء میں وحید سے شادی کی جس کے بعد محکمہ ڈاک نے یہ کہہ کر نوکری سے نکال دیا کہ اب وہ بیوہ نہیں رہیں۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2015ء کے قانون کے مطابق اگر کوئی خاتون اپنے شوہر کی وفات کے بعد سرکاری نوکری حاصل کرتی ہے تو دوسری شادی کرنے کے بعد ان کے پاس سرکاری نوکری کرنے کا حق نہیں رہتا۔ جج جسٹس سہیل ناصر نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد اپنے فیصلے میں لکھا کہ شادی ایک مذہبی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی تحفظ اور سماجی معاہدہ ہوتا ہے۔ بیوہ کا لفظ ساتھ لگنے کے بعد اس معاشرے میں خواتین اپنے تحفظ کے لیے دوبارہ شادی کرتی ہیں تاکہ سماج کی نظروں میں بہتر مقام حاصل کر سکیں۔ عاصمہ شہزادی نے بھی اسی صورت حال کے پیش نظر دوسری شادی کی۔ جسٹس سہیل ناصر نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ ریاست کا کام اپنے شہریوں کی تکالیف کو کم کرنا ہوتا ہے نہ کہ ان کے مسائل بڑھانا۔ ایسے قوانین جن سے بنیادی تحفظ چھین لیا جائے ایک غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام ہے۔ محکمہ ڈاک نے عاصمہ سے نوکری واپس لے کر آئین کے آرٹیکل 35 کی صریحا خلاف ورزی کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 35 شادی، خاندان، ماں اور بچے کے تحفظ کا ضامن ہے۔ جس پالیسی کے تحت عاصمہ سے نوکری واپس لی گئی عدالت اس کو آئین کے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیتی ہے۔ محکمہ ڈاک کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ فی الفور عاصمہ شہزادی کو ان کی نوکری واپس کرے۔