فانی انسان کو اس کا کردار اور عمل لافانی بنا دیتا ہے حمید نظامی اپنی ذات میں ایک ادارہ ایک تحریک اور ایک عہد اور تاریخ ہے ایک ایسی تحریک جو خود بھی زندہ رہتی ہے اور دوسروں کو بھی زندہ رکھتی ہے انہوں نے اپنی ہمت سے اپنی دنیا پیدا کی اپنی قابلیت کا عوام و خواص کے دل میں ایسا نقشہ بنایا کہ شاید ہی ایسا کوئی شخص کبھی اس عروج کو پہنچ سکا ان کی ذات علامہ اقبال کے ذہن رسا اور قائداعظم کی قوت عمل کا پر تو تھی ان کے ذہن میں دور اندیشی معاملہ فہمی اور نکتہ سنجی کی وہی وقعت تھی جو علامہ اقبال میں تھی اور عمل و استقلال کی وہی عزیمت تھی جو قائداعظم میں تھی صحافتی قدروں کی پامالی انکے نزدیک ناقابل معافی گناہ تھا اسلئے انہوں نے نگارشات کو شائستگی اور استدلالی توازن کا حامل رکھا جس کی حلیفوں نے بھی داد دی اور حریفوں نے بھی قلم کی عصمت انہیں بے حد عزیز تھی اسے انہوں نے تادم واپسیں داغدار نہ ہونے دیا پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بھی انکے صحافیانہ تیور اور انداز وہی رہے انکے نوک قلم کی زد میں ہر وہ حکمران رہا جس نے جمہوری قدروں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قلم پر پہرے بٹھانے کی ناحق کوشش کی۔ شخصی آزادی کی حمایت آمرانہ حکومتوں کی مخالفت جاگیرداری نظام کو جڑ سے اکھاڑنے اور قوم و ملت سے محبت ایسے اصول تھے جس پر انہوں نے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ حمید نظامی مرحوم نے پاکستان اور اسلام کی سربلندی کیلئے جو مشعل روشن کی تھی انکے بھائی امام صحافت مجید نظامی نے بعد میں نہ صرف اس مشعل کو روشن رکھا بلکہ اس کی انفرادیت کی نیا اعتماد بخشا۔ بقول آغا شورش کاشمیری حمید نظامی مرحوم کی زندگی پر نظر ڈالنے سے انکی سیرت کے تین حصے سامنے آتے ہیں پہلا بطور اخبار نویس دوسرا بطور انسان کے انکی خوبیوں تیسرا ملکی سیاست پر ان کا اثر جہاں تک اخبار نویس کا تعلق ہے۔ انہوں نے اپنے زور قلم سے منوالیا کہ اداریہ نویس کو قوت حاصل ہے یہی نہیں بلکہ انہوں نے قلم کی طاقت سے وزارتوں پر اتناا ثر ڈالا کہ نوائے وقت ایک زبرداست قوت احتساب ثابت ہوا کسی اخبار کو خواہ انگریزی کا ہو خواہ اردو کا نظامی مرحوم کے زمانہ میں وہ اثرور سوخ حاصل نہ ہوا جو انکی بدولت نوائے وقت کو حاصل تھا اور جرنلزم کی تاریخ میں نوائے وقت ایک ایسا روزنامہ نظر آتا ہے جس نے وزارتوں کو اپنے وجود سے لرزا دیا اور حکومت کو اپنی زبردست طاقت سے گوش بر آواز رکھا جہاں تک اخبار نویس کے تاریخی اور معنوی وجود کا تعلق ہے نوائے وقت کو یہ خصوصیت حاصل ہوئی کہ اپنی خاص روایتوں کے باعث نئے دور کی اخبار نویسی کیلئے وہ سنگ میل ہوگیا۔
قائداعظم کی رحلت نے طالع آزمائوں کیلئے راستہ صاف کردیا مگر ان طالع آزمائوں کیخلاف جن صحافیوں نے جہاد کیا حمید نظامی انکے سرخیل تھے اس پاداش میں نوائے وقت کا ڈیکلیریشن منسوخ کردیا گیا حمید نظامی نے ہمت نہ ہاری اور نوائے وقت کی روح اور مقاصد کا تسلسل قائم رکھا۔
٭…٭…٭