نورمقدم قتل کیس ظاہر جعفر کو سزائے موت والدین بری

Feb 25, 2022

اسلام آباد (وقائع نگار،نمائندہ نوائے وقت‘نوائے وقت  رپورٹ) اسلام آباد کی مقامی عدالت کے  جج نے نور مقدم قتل کیس میں گرفتار مرکزی ملزم  ظاہر ذاکر جعفر کو سزائے موت کا حکم  سنایا ہے۔ عدالت نے مختلف دفعات کے تحت درج مقدمات میں ملزم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر 36 سال قید اور 8 لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔ ملزم کے والدین اور تھراپی ورکس کے 6 ملازمین کو بری کر دیا  جبکہ جرم میں معاونت کرنے پرگھر کے دو ملازموں کو  10،10سال قید بھگتنا ہو گی۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے  مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو قتل کے جرم پر سزائے موت اور 5 لاکھ جرمانے کا حکم سنایا ہے۔ جبری زیادتی کے جرم میں ظاہر جعفر کو 25 سال قید اور  دو لاکھ جرمانہ، عدالت نے اغوا کے جرم میں ظاہر جعفر کو 10 سال قید ایک لاکھ جرمانے کی سزا جبکہ دفعہ 342 کے جرم پر ایک سال مزید قید کی سزا سنائی ہے۔ مجرم جرمانہ مقتولہ کے ورثا کو ادا کرے گا۔ فاضل جج نے جرم میں معاونت کرنے پر ملزم افتخار اور محمد خان کو 10،10 سال کی سزا، ایک، ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ دونوں کوایک ایک ماہ قید، ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ فیصلے سے انصاف کی حقیقی معنوں میں جیت ہوئی ہے۔ اسلام آباد پولیس، پراسیکیوشن سروس اور پراسیکیوٹر کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بہترین طریقے سے کیس کے شواہد اور دلائل پیش کیے۔ نور مقدم قتل کیس کو بہترین طریقے سے منتقی انجام تک پہنچایا گیا ہے اور فیصلہ آنے سے نظام عدل مزید مضبوط ہوا ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ موجودہ حکومت کا مقصد قانون کی حکمرانی، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی مکمل حفاظت ہے، عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں اس طرح کے مضبوط فیصلے ہمارا مقصد ہے، عورتوں اور بچوں کے حقوق پامال کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا یقینی بنانا ہماری ترجیح ہے۔ علاوہ ازیں مریم نواز نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ظاہر جعفر کے جرائم صرف عصمت دری اور قتل تک ہی محدود نہیں تھے ظاہر جعفر نے پیسہ اور اثرورسوخ متاثرہ کی ساکھ پر حملے کیلئے استعمال کیا۔ شاید یہ واحد جرم ہے جہاں متاثرہ شخص ملزم بن جاتا ہے۔ نور مقدم کی عصمت دری اور قتل سے انسانیت کے ضمیر پر لگے زخم شاید کبھی مندمل نہ ہوں۔
نور مقدم کیس

مزیدخبریں