اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی کی درخواست ضمانت کیس کی سماعت آج پھر ہوگی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وکیل ملزم نے کہا سراج درانی مالدار گھرانے سے ہیں انکے لیے اثاثے بنانا مسئلہ نہیں تھا، نیب نے سراج درانی کی آمدن کا حساب 2007 سے لگایا ہے، سراج درانی نے ٹیکس گوشوارے 2007 سے جمع کرانے شروع کیے، ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا مطلب آمدن صفر ہونا نہیں، سراج درانی اور انکے اہلخانہ 1985 سے 900 ایکڑ زرعی زمین کے وارث ہیں۔ اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا سراج درانی نے 1985 سے 2008 تک کتنا پیسہ کمایا، حیران کن ہے کہ 2008 تک پیسہ کماتے رہے اور یکدم خرچ کرنا شروع ہوگئے، اگر سراج درانی پیسہ جمع کرتے رہے ہیں تو یہ بھی علم ہوگا کہ کتنے جمع کیے اور کتنے خرچ؟۔ جس پر ملزم کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا سراج درانی نے چار کنال کے دو گھر 1998 میں فروخت کیے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا فروخت کیے گئے گھروں کی مالیت کا بھی تو علم نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا سراج درانی کے پاس کئی سو تولہ سونا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سونا خریدنا سرمایہ کاری نہیں ہوتی، امیر لوگ سونا پیسے کی سکیورٹی کیلئے خریدتے ہیں، امیر لوگ تو شادیوں پر بھی کلو کے حساب سے سونا ڈالتے ہیں، بظاہر سراج درانی کیخلاف نیب کا کیس بہت مضبوط ہے، رکن اسمبلی بننے کے بعد سراج درانی کے اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہوا، گھر کو جیل قرار دینے کا مطلب ہے سراج درانی بہت بااثر ہیں، ملک کا نظام ایسا ہے جو بااثر افراد کو مکمل سہولت دیتا ہے، سراج درانی کو ضمانت نہ دیں تو بھی وہ گھر میں ہی ہیں، نیب کو سراج درانی کے جیل جانے سے کیا فائدہ ہوگا؟۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نیب ٹرائل مکمل ہونے تک سراج درانی کے اثاثے منجمد کر سکتا ہے، سراج درانی کا نام ای سی ایل میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے، امریکہ میں کرپشن کے ملزموں کو ٹریکر لگایا جاتا ہے تاکہ نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے، نیب سوچ کر موقف سے آگاہ کرے۔
سراج درانی کیس