ماموں بنا دیا 

عمران خان کی طرف سے جیل بھرو تحریک ایک سنجیدہ آئیڈیا تھا۔ چلیے تقریباً سنجیدہ یا نیم سنجیدہ ۔ لیکن یہ اتنا مزاحیہ اور غیر سنجیدہ ہو چکا ہے کہ مہنگائی کے ماروں کی غم خواری کا باعث بن گیا یعنی دل لگی کا سامان ۔ پتہ نہیں اس کا سکرپٹ کس نے لکھا۔ کنہیا لال کپور نے یا راجہ مہدی علی خان نے؟ دونوں حضرات اس دنیا میں نہیں رہے، عالم روحانیت کے باسی ہو چکے لیکن یہ کوئی ایشو نہیں ہے۔ خان صاحب بھی اقلیم روحونیات کے تاجدار ہیں، عالم بالا تک رسائی ان کے لیے کیا مشکل ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ رسائی غلط ہستیوں تک کرنی اور نتیجہ یہ نکلا کہ جیل واسیوں کی ’’رہائی‘‘ کیلئے لواحقین نے عدالت سے رجوع کیا تو کمرہ عدالت بھی قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ’’محروسین‘‘ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران دلچسپ مکالمے سننے کو ملے۔ لواحقین نے استدعا کی کہ ہمیں ان سے ملاقات کرنی ہے تو جواب ملا، آپ بھی چیئرنگ کراس چلے جاتے، ایک ساتھ ہی رہتے۔ زیادہ دلچسپ لواحقین کا موقف تھا کہ ہم لوگوں نے تو علامتی گرفتاری دینا تھی، انہوں نے سچ مچ گرفتار کر لیا۔ ایسا ہے تو پھر غلطی سکرپٹ رائٹر کی ہے۔ اس نے جیل بھرو تحریک کا عنوان ہی غلط رکھا۔ عنوان ہونا چاہیے تھا جیل بھرو کی علامتی تحریک! 
___________
ویسے کچھ پارٹی کارکن سمجھ دار نکلے۔ انہوں نے خود کو پنجرے میں بند کیا پھر پنجرہ کھول کر گھروں کو چل دیے۔ یہ تحریک کے علامتی ہونے کا زیادہ واضح اظہار تھا۔ ایک تجویز بہت ہی معقول بلکہ ازحد معقول تحریک شروع ہونے سے پہلے کسی نے دی تھی لیکن خان صاحب نے توجہ نہیں دی۔ تجویز یہ تھی کہ گرفتاریاں فیس بک اور ٹوئٹر پر دی جائیں۔ چوک چوراہے پر آنے کی ضرورت ہی نہیں۔اس تجویز پر عمل کر لیا جاتا تو پی ٹی آئی خفت اور شرمندگی کے اس سونامی سے بچ جاتی جس کا اسے سامنا ہے۔ لیکن پھر اہل وطن ایک میگا انٹرٹینمنٹ سے محروم رہ جاتے۔ 
_________
لاہور تو ساٹھ ستر گرفتاریاں ہو گئیں ، بڑی غنیمت ہے لیکن پختونخوا جو ’’حقیقی آزادی کے جہاد‘‘ کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے، ایک بھی گرفتاری پیش نہیں کر سکا۔ گرفتاری تو وہاں ایک بھی نہیں ہوئی۔ صوبے کی پولیس نے جو خبرنامہ جاری کیا ہے اس میں گرفتاریوں کے خانے میں صفر کا عدد لکھا ہے۔ البتہ سیلفیاں ضرور لی گئیں۔ کتنی کا تو پتہ نہیں لیکن درجن بھر تو ٹویٹر پر دستیاب ہیں۔ پولیس وین کھڑی ہے، لوگ دو دو تین تین کی ٹولیوں میں آتے ہیں۔ کھلے دروازے کے پائیدان پرکھڑے ہو کر وکٹری کا نشان بناتے اور سیلفی لیتے ہیں، پھر ہنستے مسکراتے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایک جوڑی سے پوچھا، یہ سیلفی کس لیے۔ بتایا خان صاحب کو بھیجنے کیلئے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ہم نے بھی گرفتاری دی تھی۔ 
یہ تو ’’ماموں‘‘ بنانا ہوا۔ حد ہو گئی، یعنی یقینی آزادی کے جہاد کے کماندار اعلیٰ کو بھی ماموں بنا دیا۔ 
___________

گرفتاری دینے والے جو لیڈر آئے، وہ دائیں بائیں کھسک گئے البتہ سابق گورنر شاہ فرمان ایک پولیس کانسٹیبل کے گھیرے میں آ گئے۔ کانسٹیبل نے کہا، حضور چلیے ، وین انتظار کر رہی ہے۔ اس کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر خوب رش لے رہی ہے۔ 
کسی تحریک کا حشر برا ہو تو ٹائیں ٹائیں فش کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ جیل بھرو تحریک کا ’’حشر‘‘ اتنا آگے کی چیز ہے کہ یہ پھبتی کمزور پڑ گئی، کوئی مناسب قوت والی پھبتی لغت میں مل ہی نہیں رہی۔ کیا کیجئے؟
خان صاحب نے گیارہ ماہ میں بارہ ایڈونچر کیے۔ سب کے سب ناکام یعنی ٹائیں ٹائیں فش۔ یہ تیرھواں تھا۔ اب اس پر کیا کہیے، سوائے اسکے کہ تیرہ کا ہندسہ (اہل فرنگ کے نزدیک) ہوتا ہی منحوس ہے۔ سبق یہ ملا کہ تیرھواں ایڈونچر کرنا ہی نہیں چاہیے، بارہویں کے بعد ہی بجوگ لے لینا چاہیے۔ ادھر خواجہ آصف نے ایوان میں دکھی دلوںکو تجویز دی ہے کہ وہ اب ڈوب مرو تحریک چلائیں لیکن سنجیدہ مت ہوں، خواجہ صاحب کا مطلب ہے کہ علامتی طور پر ڈوب مرنے کی تحریک چلائی جائے۔ زیادہ بہتر ہے کہ یہ تحریک ٹویٹر پر بھی چلے ورنہ پہلے کہا گیا تھا کہ جیلیں کم پڑ جائیں گی، اب کہنا پڑے گا کہ پانی کم پڑ گیا۔ 
___________
بھنور کے اندر سے ایک اور بھنور اور بحران کے اندر سے ایک اور بحران۔ بحران در بحران در بحران۔ الجبرے کے قاعدے کے حساب سے بحران کے اوپر کوئی ہندہ لگا لیجئے
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں 
کچھ یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہے۔ اتنے بحران ہم پر پڑے کہ اب یہ بحران تماشا بھی کہہ سکتے ہیں۔ بحرانوں کا باوا آدم، سچ پوچھئے تو جنرل منیر، معاف کیجئے گا، جسٹس منیر تھا جس نے نظریۂ ضرورت ایجاد کیا اور ایوب خان کی دہلیز پر آئین، قانون ہی نہیں، ملک کا مستقبل ہی قربان کر دیا۔ 
حالیہ بحران، بھلے سے معاف نہ کیجئے لیکن کہنے دیجئے کہ تب پیدا ہوا جب ایک ’’آئینی ترمیم‘‘ کی گئی اور نکتہ یہ ہے کہ یہ آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے نہیں کی، پارلیمنٹ کے آس پڑوس میں کی گئی۔ ترمیم یہ تھی کہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں مخالف پارٹی کا کوئی رکن ووٹ ڈالے گا تو اس کا نہ صرف ووٹ کالعدم ہو جائے گا بلکہ اس کی رکنیت بھی کالعدم ہو جائے گی۔ یوں تحریک عدم اعتماد کی شق ہی عملاً ختم کر دی گئی یعنی آئین میں تحریک عدم اعتماد موجود تو ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔ آئین کی یہ ’’ترمیم‘‘دنیا کے کسی اور ملک کے آئین میں نہیں ہے۔ اس ترمیم کے بعد سے وہ بحران پھوٹا جس نے جولائی میں سر نکالا اور اب عفریت بن کے کھڑا ہے، لوگوں کو ڈرا رہا ہے اور اجلاس ہو رہے ہیں کہ اس سے کیسے نکلیں۔ 
___________
کوئی حادثے میں ہلکا پھلکا زخمی ہو کر بے ہوش ہو گیا۔ کسی نے کہا جوتا سنگھائو، کسی نے مالش کی صلاح دی۔ ایک نے کہا اسے گرم گرم حلوہ کھلائو۔ زخمی ہوش میں آ کر بولا ارے کوئی اس تیسرے کی بھی سن لے___ عمران خان نے باتوں باتوں میں پھر قوم کو یاد دلایا ہے کہ سری لنکا میں لوگوں نے وزیر اعظم کا گھر جلا دیا تھا۔ گویا عمران خان لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ ارے کوئی سری لنکا والی بات بھی سن لے۔ 
___________

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...