قائداعظم کا سوہنا شہکار، حمید نظامی تھے


معزز قارئین! آج پاکستان اور بیرونِ پاکستان ”فرزندان پاکستان“ ۔ قائداعظم کے ایک شاہکار ، تحریک پاکستان کے نامور (گولڈ میڈلسٹ)کارکن بانی ¿ ” نوائے وقت “ جنابِ حمید نظامی کی 61ویں برسی منا رہے ہیں ۔ مَیں نے 1960ءمیں مسلک صحافت اختیار کِیا تھا ، جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ” بی ۔ اے ۔ فائنل“ کا طالبعلم تھا پھر میرا لاہور آنا جانا ہوگیا۔ یہ مئی 1961ءکا کوئی دِن تھا ، جب مَیں نے ضلع سرگودھا کے اپنے ایک بزرگ دوست تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد کی وساطت سے اُن کے ساتھ جنابِ حمید نظامی سے پہلی اور آخری ملاقات کی ۔ ملاقات میں گفتگو تو قاضی مُرید احمد صاحب اور جنابِ حمید نظامی میں ہوتی رہی مَیں صرف دیکھتا اور سُنتا رہا ۔ 
اُن دِنوں صدر، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا دَور تھا لیکن جنابِ حمید نظامی قوم کو اُن کے حقوق دلوانے کے لئے نظریہ¿ پاکستان کو ہتھیار اور اپنے قلم کو عَلم بنا کر شجاعت کے جوہر دکھا رہے تھے ۔ 25 فروری 1962ءکو جنابِ حمید نظامی کا انتقال ہُوا تو آپ کے چھوٹے بھائی ( تحریک پاکستان کے نامور ) ” گولڈ میڈلسٹ“ کارکن جنابِ مجید نظامی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر لندن سے واپس آ کر اُنہوں نے اپنے عظیم بھائی کی وراثت ” نوائے وقت “ سنبھال لی۔ جنابِ مجید نظامی بھی ( معمار ”نوائے وقت “ کی حیثیت سے ) اپنے وِصال ”26 جولائی 2014ء“ تک ، 4 فوجی آمروں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان، جنرل صدر محمد یحییٰ خان ، جنرل صدر محمد ضیاءاُلحق اور جنرل صدر پرویز مشرف کے علاوہ ”جمہوریت کے نام پر “ سیاسی صدور اور وزرائے اعظم کے دَور میں تاحیات علامہ اقبال قائداعظم اور مادرِ ملّت کے افکار و نظریات کے فروغ کے لئے جدوجہد کرتے رہے ۔ جنابِ مجید نظامی کے بعد اُن کی صاحبزادی محترمہ رمیزہ نظامی نے ” نوائے وقت “ کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ 
معزز قارئین ! میرا جنابِ حمید نظامی اور ” نوائے وقت“ سے براہِ راست تعلق فروری 1964ءمیں قائم ہُوا جب جنابِ مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ” نوائے وقت “ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملی ترانے لکھے ۔ ایک ترانہ ”محکمہ تعلقاتِ عامہ مغربی پاکستان “ کی شائع کردہ ملی نغموں کی ضخیم کتاب میںشائع ہُوا اور دوسرا ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا۔ جنوری 1999ءمیں میرے دوست سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات ،سیّد انور محمودپاکسےتان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اُنہوں نے کئی شاعروں کے ترانوں کو نئے سرے سے ریکارڈ کروایا۔ میرا ترانہ پٹیالہ گھرانہ کے جناب حامد علی خان نے گایا ۔
مَیں نے 11 جولائی 1973ءکو اپنا روزنامہ ”سیاست“ لاہور جاری کِیا۔ روزنامہ ” نوائے وقت“ میں میری کالم نویسی کا دوسرا دَور جولائی 1998ءسے جون 1999ءتک اور تیسرا دَور اگست 2012ءسے شروع ہو کر جناب مجید نظامی کی وفات کے بعد بھی 2017ءتک جاری رہا۔3 مارچ 2020ءسے ” نوائے وقت “ کے کالم نویس کی حیثیت سے میرا چوتھا دَور جاری ہے ۔ 
معزز قارئین ! 25 فروری 1993ءکو جنابِ حمید نظامی کی 31 ویں برسی کے موقع پر ،جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں ، ”قائداعظم کا سُوہنا ، شہکار، حمید نظامی تھے!“کے عنوان سے نظم پڑھی جو پیش خدمت ہے ....
” حق گوئی ، بیباکی سے، سَرشار حمید نظامی تھے
بزم میں ، رزم میں ، مردِ طرح دار، حمید نظامی تھے
....O....
شاعرِ مشرق کے افکار سے ، روشن روشن ،کعبہ¿ دِل
قائداعظم کا سُوہنا ، شہکار، حمید نظامی تھے
....O....
ہر جابر سُلطان کے سامنے کلمہ¿ حقّ بلند کِیا
کانگریسی مُلّاﺅں سے ستیزہ کار حمید نظامی تھے 
....O....
کوئی بھی ابلِیسِ سیاست اُن کے سر کو جُھکا نہ سکا
باطل کی گردن کے لئے تلوار حمید نظامی تھے
....O....
فیض رسانی اُن کا وتِیرہ ہمدردی اُن کا دستُور
سب کے لئے اخلاص کی جُوئے بار حمید نظامی تھے
....O....
جانِ محفل حال و قال، مہذّب نُکتہ رس و نُکتہ نواز
خُوش خُو و خُوش دِل و باغ و بہار ، حمید نظامی تھے
....O....
ساری عُمر مجید نظامی حقّ کے عَلم بردار رہے
جیسے سچّائی کے قَلم بردار حمید نظامی تھے
....O....
معزز قارئین ! مَیں ، جب ” نوائے وقت “ میں کالم نہیں بھی لکھتا تھا، تب بھی میرے تین دوستوں برادرانِ عزیز سابق ایڈیٹر "The Nation" سیّد سلیم بخاری ” نوائے وقت “ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسی اور ” نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید(اب مرحوم) کی وساطت سے میرا جنابِ مجید نظامی سے مسلسل رابطہ اور ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔ جنابِ مجید نظامی کی قومی خدمات اور اُن کی شخصیت پر کئی نظمیں لکھی ۔20 فروری 2014ءکو ” ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان“ چھٹی سہ روزہ ” نظریہ ¿ پاکستان کانفرنس“ کے لئے مَیں نے سیّد شاہد رشید(اب مرحوم) کی فرمائش پر ملّی ترانہ لکھا اور جب یہ ترانہ ” وائیں ہال “ میں پڑھا گیا تو ، جنابِ مجید نظامی نے مجھے ” شاعرِ نظریہ¿ پاکستان“ کا خطاب دِیا۔
 3 اپریل 2014ءکو جنابِ مجید نظامی کی 86ویں سالگرہ پر ” ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان “ لاہور میں جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں ، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مہمانِ خصوصی تھے ، جب مَیں نے ”چمک رہا صحافت کا مہر عالم تاب “ کے عنوان سے نظم پڑھی۔ نظم کے تین بند پیش خدمت ہیں ....
” سجائے بَیٹھے ہیں محفل خلُوص کی احباب
کِھلے ہیں رنگ برنگے محبّتوں کے گُلاب
بنایا قادرِ مُطلق نے جِس کو عالی جناب
چمک رہا ہے صحافت کا مہِر عالم تاب
....O....
اَمن کی راہ پہ اِک عزمِ عالی شان کے ساتھ
وَغا میں مردِ مجاہد کی ، آن بان کے ساتھ
مَتاعِ حِکمت و سَطوَت کا بے کراں دَریاب
چمک رہا ہے صحافت کا مہرِ عالم تاب
.... O....
خُوشا! مجید نظامی کی برکتیں ہر سُو
ہے فکرِ قائد و اقبال کی نگر نگر خُوشبُو
اثر دُعا ہے کہ ہو ارضِِ پاک بھی شاداب
چمک رہا ہے صحافت کا مہرِ عالم تاب“ 
....O....
26 جولائی 2014ءکی صبح جنابِ مجید نظامی خالق حقیقی سے جا ملے تو، میری تعزیتی نظم کا ایک شعر یوں ہے کہ ....
” رواں ہے چشمہ¿ نُور کی صُورت
ہر سُو اُن کی ذاتِ گرامی 
جب تک پاکستان ہے زندہ،
زندہ رہیں گے مجید نظامی“
....O....
معزز قارئین ! علاّمہ اقبال نے جنابِ حمید نظامی سمیت ہر مسلمان کے مرنے پر اُس کے پسماندگان کو تسلی و تشفی دینے کے لئے کیا خوب کہا ہے کہ ....
” مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں 
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں “
....O....

ای پیپر دی نیشن