حمید نظامی کا آزادی ِصحافت کا مشن 


بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم کے نوجوان ساتھی صدر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اور قائد کے حکم پر متعصب اور جارح ہندو پریس کے مقابلے میں آزادی¿ صحافت کا پرچم تھامنے اور اسے سربلند رکھنے والے بانی و مدیر نوائے وقت جناب حمید نظامی کی آج 61ویں برسی ہے تو مجھے آج کے منتخب جمہوری دور میں آزادی¿ صحافت کو لاحق ہونیوالے سنگین خطرات کو جانچ کر اس حوالے سے اپنی دل گرفتگی کی شدت میں کمی ہوتی محسوس ہورہی ہے کہ جرنیلی آمروں کے کٹھن ادوار میں بھی اپنے مافی الضمیر کے اظہار کی جرا¿ت رکھنے اور آزادی¿ صحافت کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دینے کے جذبے سے سرشار ہمارے صحافتی قائد جناب حمید نظامی اور انکی درخشاں روایات کے محافظ و امین جناب مجید نظامی آج کے اتحادی حکمرانوں اور پی ٹی آئی کے سابقہ دور میں آزادی¿ صحافت کی درگت بنتی دیکھنے کیلئے زندہ نہیں ہیں ورنہ آج انکے دل زخمی ہوتے اور وہ جرنیلی آمریتوں سے بھی زیادہ سفاکانہ انداز میں صحافت کی آزادی اور اظہار رائے پر لگائی جانیوالی قدغنوں پر کڑھتے‘ چبھن محسوس کرتے اس جہانِ فانی سے کوچ کرجاتے۔ یہ دنیا شاہد و گواہ ہے کہ بانی¿ نوائے وقت محترم حمید نظامی نے تحریک پاکستان کیخلاف ہندو پریس کی غلیظ و مقہور پراپیگنڈہ مہم کا مسکت اور دوٹوک جواب دینے کا اپنے قائد محمدعلی جناح کی جانب سے سونپا گیا مشن اپنے پندرہ روزہ‘ ہفت روزہ اور پھر روزنامہ نوائے وقت کے صفحات پر جرا¿ت و پامردی کے ساتھ جاری و ساری رکھا اور مسلمانوں کے ترجمان اس اخبار کو تحریک پاکستان کی آواز بنایا اور نظریہ¿ پاکستان کی آبیاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے بھی پاسبان و امین بنے اور خالصتاً پاکستان کی ترجمان صحافت کے ڈنکے بجاتے رہے۔ پھر انہیں ممتاز دولتانہ کے آزادی¿ صحافت کیخلاف جبری ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے نوائے وقت کا ڈکلیریشن منسوخ کیا تو بھی جناب حمید نظامی کے پائے استقلال اور انکی جرا¿ت رندانہ میں کوئی کمزوری پیدا نہ ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے دو قومی نظریہ کی ترویج و حفاظت اور پاکستان کے استحکام کیلئے خود کو وقف کر دیا اور پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونیوالے اس ملک خداداد میں اسلامی اصولوں کے مطابق جمہوریت کے فروغ اور جمہور کی حکمرانی کی تدریس و تلقین اپنے مشن کا حصہ بنائی۔ انہوں نے اپنے اچھوتے اندازِ تحریر و بیان کے ذریعے بلاشبہ ایک باوقار اور صاف ستھری صحافت کو پروان چڑھایا اور تحریک پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کرتے ہوئے دو قومی نظریے کی شمع کبھی مدھم نہ ہونے دی۔ وہ خلوص کے ساتھ یہ محسوس کرتے تھے کہ دو قومی نظریہ کو ہمہ وقت تازہ رکھ کر ہی قیام پاکستان کے مقاصد کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ 
بانی¿ پاکستان کے انتقال کے بعد بدقسمتی سے انگریز اور ہندو کے ٹوڈی مفاد پرست سیاست دانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے قیام پاکستان کے مقاصد سے انحراف اور جمہوریت پر شب خون مارنے والے ماورائے آئین و قانون اقدام کا راستہ طالع آزماﺅں کیلئے ہموار کرنا شروع کر دیا جو بانی¿ نوائے وقت اور آزادی¿ صحافت کے علمبردار حمید نظامی کیلئے انتہائی تکلیف دہ صورتحال تھی مگر جبر و کٹھنائی کے اس ماحول میں بھی انہوں نے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے سیاست و صحافت کے متعینہ اپنے زریں اصولوں کو حرزِجاں بنائے رکھا اور قیام پاکستان کے مقاصد سے انحراف کا سوچنے والے مفاد پرستوں کے آگے چٹان کی طرح ڈٹ گئے۔ جب ایوب خان نے بیوروکریٹ سکندر مرزا کی ملی بھگت سے جمہوریت کی بساط الٹا کر ملک میں پہلا مارشل لاءمسلط کیا تو حمید نظامی نے اسکی ڈٹ کر مخالفت کا آغاز کیا جس کی پاداش میں انہیں حکومتی سختیوں اور جبر و گھٹن کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں نوائے وقت کیخلاف اٹھائے جانیوالے مارشل لائی جبری اقدامات سے زیادہ جمہوری معاشرے کیلئے پیدا ہونیوالی گھٹن سے کرب محسوس ہوتا تھا جبکہ مارشل لاءکی سختیوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے حمید نظامی کے کاروباری ساتھی اور اخبار کے پرنٹر نے اخبار کی اشاعت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ یہ صدمہ حمید نظامی کے عارضہ¿ قلب کا باعث بنا اور انہوں نے اسی جبرو گھٹن میں 25 فروری 1962ءکو آخری سانس لے کر خود کو سپرد خدا کر دیا۔ 
بے شک حمید نظامی شہیدِ مارشل لاءتھے جنہوں نے اپنے بھائی مجید نظامی کی تربیت بھی اپنی وضع کردہ صحافتی اقدار کے مطابق اس نہج پر کردی تھی کہ انکے انتقال کے بعد مجید نظامی بھی آزادی صحافت اور نظریاتی صحافت کا پرچم سربلند ر کھتے ہوئے اپنے برادر بزرگ کے نقشِ قدم پر چلتے چلتے پاکستان کی ترجمانی کرنیوالی صاف ستھری صحافت پر کاربند رہے اور جرنیلی آمریتوں ہی نہیں‘ سول حکمرانوں کے دلوں میں پرورش پانے والی آمرانہ سوچ کو بھی چیلنج کرتے رہے۔ جب گورنر نواب امیر محمد خان حمید نظامی کی وفات پر تعزیت کیلئے مجید نظامی کے گھر آئے تو انہوں نے حمید نظامی کی جرا¿ت رندانہ کے تناظر میں ہی مجید نظامی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں تو مارشل لاءکے تابع آپ پر سختیاں توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا مگر آپ نے اپنے بھائی کی طرح میدان میں ڈٹے رہنا ہے ورنہ آپ ”جنا“ (بہادر انسان) نہیں ہونگے۔ مجید نظامی صاحب نے جلالی گورنر امیر محمد خان کو اپنے بھائی کے دبنگ لہجے میں ہی باور کرایا کہ آپ مجھے اس میدان میں ”جنا“ ہی پائیں گے۔ انہوں نے میدان صحافت میں اپنے اس بے باکانہ کردار کو تادم زندگی عملی طور پر ثابت بھی کیا جنہوں نے ایوب خان کے علاوہ یحییٰ خان‘ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی جرنیلی آمریتیں بھی بھگتیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی سول آمریت کے آگے بھی ڈٹے رہے۔ جلالی آمر حکمرانوں کے ساتھ انکے ڈائیلاگ تو ضرب المثل بن چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی حمید نظامی کے آزاد و باوقار صحافت کے مشن کو حرزِجاں بنا کر بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے ادوار کے آزادی¿ صحافت پر قدغنیں لگانے والے آمرانہ ہتھکنڈوں کے آگے بھی کبھی سر نہ جھکایا اور انکی عائد کردہ پابندیوں کے باعث اپنے ادارے کا نقصان قبول کرلیا مگر ان سے کبھی رحم کی بھیک نہیں مانگی۔ انہیں جمہوریت کی عملداری سب سے زیادہ عزیز تھی جس کیخلاف کسی بھی محلاتی سازش اور آمرانہ سوچ کا اپنے میڈیا کے اداروں کے پلیٹ فار م پر پھُلکا اڑایا کرتے تھے۔ 
اس حوالے سے وہ عمران خان کے سابقہ اور شہبازشریف کی زیرقیادت حکومتی اتحادی جماعتوں کے موجودہ منتخب جمہوری دور میں آزادی صحافت کو پابند سلاسل کرنے کے مارشل لاءادوار سے بھی بدتر ہتھکنڈوں پر یقیناً آزردہ اور دل گرفتہ ہوتے۔ عمران خان ”پیکا“ جیسے آرڈیننس لا کر جرنیلی ادوار میں ہونیوالی اپنی سیاسی تربیت ہی کا خود کو شاہکار بنانے کے آرزو مند رہے مگر خدا کے فضل سے آزادانہ اظہار رائے اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قیدو جرمانہ کی سزاﺅں کے ذریعے بندشیں لگانے کی سوچ کی آج ریاستی اداروں سمیت پوری سول سوسائٹی کی جانب سے سخت مزاحمت ہورہی ہے۔ اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ”پیکا“ آرڈیننس کی قیدوجرمانہ کی سزاﺅں والی شق معطل کرکے اور پاکستان الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ¿ اخلاق کو اپنی من مرضی کے مطابق ڈھالنے والے صدارتی آرڈیننس کو آئین و قانون سے متجاوز قرار دیکر آزادی اظہار کے اسی راستے کو سبک خرام بنایا جو حمید نظامی اور مجید نظامی نے اپنی انتھک جدوجہد سے ہموار کیا تھا اور موجودہ اتحادی حکمرانوں کی آزادی¿ اظہار کو پابند سلاسل کرنے کی سوچ کو پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی فعالیت میں پنپنے کا موقع نہیں مل سکتا۔ سو اسلامی جمہوری اقدار کے مطابق آزادی¿ صحافت و ابلاغ کیلئے ان کا آغاز کردہ مشن آج بھی اسی جذبے کے ساتھ جاری و ساری ہے اور ہر آمرانہ سوچ کے آگے دیوار بن کر کھڑا ہے۔ یہ درحقیقت جمہوریت کے نام لیواﺅں کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی پر ناروا قدغنیں لگا کر قائد کے پاکستان کا کیا حشر کرنا چاہتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...