2جج الگ کریں ، فل کورٹ بنا ئیں : حکومتی اتحاد

Feb 25, 2023


 اسلام آباد (خصوصی رپورٹر‘ این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پی کیمیں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے کہا ہے کہ 2 ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے، دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہئے۔ تفصیلات کے مطابق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرے گی کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔ جمعہ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ دوران سماعت سابق سپیکر کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، نیر حسین بخاری، فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان، گورنر پنجاب کے وکیل مصطفی رمدے، وائس چیئرمین پاکستان بار ، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین، اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہیٰ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن، پی ٹی آئی رہنما عامر محمود کیانی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے مؤقف اپنایا کہ حکم کی کاپی ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج اکٹھے ہونے کا مقصد تھا سب کو علم ہوجائے، مختلف فریقین کے وکلاء عدالت میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس تو نہیں ملا، درخواست ہے سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، بینچ کی تشکیل پر ہمیں 2 ججز پر اعتراض ہے، دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج پہلے سب کی حاضری لگائیں گے، سوموار کو سب کو سنیں گے، چار صوبائی وکلا کی نمائندگی عدالت میں موجود ہے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے، نہایت احترام سے ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض کر رہا ہوں ،اعتراض کرنے کا فیصلہ ہمارے قائدین نے کیا ہے۔ دوران سماعت جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ن)، پاکستان بار کونسل کی جانب سے 2 ججز پر اعتراض کیا گیا۔ اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مشترکہ بیان عدالت میں پڑھا۔ بیان میں کہا گیا کہ دونوں ججز مسلم لیگ (ن) اور جے یوآئی (ف) کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سے الگ کردیں۔ فارق ایچ نائیک نے کہا کہ میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، جے یو آئی کا متفقہ بیان پڑھ رہا ہوں، تینوں سیاسی جماعتیں احترام سے کہتی ہیں کہ دو رکنی بینچ کا ازخود نوٹس کا حکم سامنے ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا عدالت میں پڑھا گیا بیان بھی ہے، انصاف کی فراہمی اور فئیر ٹرائل کے تناظر میں دونوں ججز صاحبان کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اس موقع جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ 184/3 سے متعلق سمجھتا ہوں، کیوں نہ یہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ اس وقت میں اس کی گہرائی میں نہیں جائوں گا، میرا بھی یہی خیال ہے کہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پہلے کیس میں اس کے قابل سماعت ہونے پر بات کر یں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ معاملہ فل کورٹ سنے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوکہ اس معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔ فاروق نائیک نے مشترکہ بیان کا متعلقہ پیراگراف پڑھتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سوموٹو کا نوٹ لکھا، گزشتہ روز جسٹس جمال مندوخیل نے ایک نوٹ لکھا، جسٹس مندوخیل کا نوٹ انتہائی تشویشناک ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کے پاس وہ نوٹ ہے، یہ نوٹ تو تحریری حکمنامہ کا حصہ ہے جس پر ابھی دستخط نہیں ہوئے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ ازخود نوٹس دو ممبر بینچ کی سفارش پر لیا گیا ہے، سوال یہ ہے کیا ایسے ازخود نوٹس لیا جاسکتا ہے، واضح کرتا ہوں کہ کوئی ذاتی وجوہات نہیں ہیں۔ دوران سماعت عوامی مسلم لیگ کے وکیل اظہر صدیق ویڈیو لنک پر پیش ہوئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی جارہی ہے، اس پر نوٹس لیاجائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔ دوران سماعت شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ جلسے میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔ اس موقع پر وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے پی ڈی ایم کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض کو پہلے سنے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عام طور پر شہری عدالت کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں، آج ہماری دہلیز پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جس سوال پر ازخود نوٹس لیا گیا آئین کی تشریح کا معاملہ ہے، پارلیمنٹ  میں حل کیوں نہیں کرتے۔  جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کیا آپ نہیں سمجھتے اس معاملے کو تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ کو سنا جانا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ پیر کے دن فل کورٹ بینچ بنانے یا نہ بنانے کے سوال پر سماعت ہوگی، پیر کے دن 2 ججز پر اٹھائے گئے اعتراض کو بھی سنیں گے۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت پیر ساڑھے گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔ صدرمملکت کے سیکرٹری، گورنرز کے وکلائ، الیکشن کمشن کی جانب سے ڈی جی لاء عدالت میں پیش ہوئے۔دریں اثناء سماعت کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2 ججوں کو نکال کر فل کورٹ بنچ بنایا جائے۔

 ازخود نوٹس کیس

اسلام آباد (نامہ نگار) وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سپریم کورٹ کے ججز کے بارے میں کہا ہے جب وہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر ہماری حدود میں تجاوز کریں گے تو آواز اٹھانا ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ انہوں نے اپنی کرسیوں کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف  نے کہا کہ پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے اور ایسا حل نکالے کہ جو نہ صرف ہمارے لیے تریاق ہو بلکہ جو مرض ہمیں دہائیوں سے لاحق ہیں ان کا بھی بندوبست کرلیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت ہورہی ہے، کچھ سوالات مرتب کیے گئے ہیں جن کے جوابات سپریم کورٹ میں ڈھونڈے اور دیے جائیں گے، جس میں سیاسی جماعتوں، بار کونسلز سمیت متعدد فریقین ہیں۔ مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے مثبت و منفی اثرات موجودہ نہیں بلکہ مستقبل میں بھی ملک کے سیاسی اور عمومی حالات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خوش آئند بات ہے کہ 9 ججز کا بینچ تشکیل دیا گیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا متقاضی ہے۔  وزیر دفاع نے کہا کہ ماضی قریب میں ججز کا نام لے کر اور پاناما کے ججز پر تنقید کی جاتی ہے۔ جب وہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر ہماری حدود میں تجاوز کریں گے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم آواز اٹھائیں کہ انہوں نے اپنی کرسیوں کے تقاضے پورے نہیں کیے، جن میں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نام ہے لیکن ناصر الملک اور تصدق جیلانی کا نام نہیں آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت میں ایک بات کی گئی کہ کیوں نہ اسمبلیوں کی تحلیل پر بات کرلی جائے کہ کیا وہ ٹھیک تھا یا غلط۔ خواجہ آصف نے کہا اس سے پہلے چلے جائیں کہ جب اعلی عدلیہ نے اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 63- اے کو ری رائٹ کیا،  جس آئینی بحران کا ہم اس وقت سامنا کررہے ہیں یہ اس کا براہ راست اثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورا ملک سیاسی، معاشی اعتبار سے رک جانے کے قریب پہنچا ہوا ہے، یہ سارا سلسلہ اگر جانا ہے تو اس وقت جو لوگ ملوث تھے ان سب کے براہ راست اور بالواسطہ اعترافات بھی آچکے ہیں کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ جس طرح زیادتی ہوئی، انہیں تاحیات نااہل کیا گیا، اسٹیبلشمنٹ کے بھی اعترافات موجود ہیں کہ ہم نے اس میں مداخلت کی، عدلیہ کے اعترافات بھی موجود ہیں کہ اس کیس میں تجاوز ہوا تھا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت، شاہ محمود قریشی بھی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اس ایوان کے توسط سے میری عدالت عظمی سے درخواست ہے کہ پوری کورٹ کا بینچ بنا کر پاناما سے شروعات کریں، اس ملک اور خصوصاً سیاسی برادری کے ساتھ آئینی اور قانون کے لبادے میں جو زیادتی ہوئی ہے، ایک ایسے شخص کو مسلط کیا گیا کہ جس نے 4 سے 5 سال کے اندر ملک کو تہہ و بالا کردیا۔ ہم نے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کا حق استعمال کیا گیا لیکن ساتھ ہی حکومت تحلیل کردی گئی اور جس نے کی وہ آج بھی صدارتی محل میں بیٹھا ہوا اور آئین کی دفہ 6 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے ،کیا کسی نے اس بات کا نوٹس لیا۔ پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب میں جس طرح تحلیل ہوئی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس کو بھی دیکھا جائے کہ اسمبلیاں سیاسی وجوہات پر تحلیل کی گئیں یا عوامی مفاد میں، یا آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کی گئی، یہ تمام سوالات جواب چاہتے ہیں، پوری کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کو سنے توگزشتہ8  ماہ میں جو کچھ ہوا اسے ری ایڈریس کیا جاسکتا ہے۔ معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ہی نہیں کسی ملک کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک بندہ باہر گاڑی میں بیٹھا ہوا ہے، اسے عدالت بلا رہی ہے، اسے عدالت کہہ رہی ہے کہ آجا وہ نہیں آتا، لاڈ پیار سے کہتے ہیں، جبکہ ہماری تو ایک مرتبہ میں ہی ضمانتیں منسوخ ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا ہم ان چیزوں کا ازالہ نہیں مانگتے ہم صرف چاہتے ہیں کہ یہ ملک آئین و قانون کے مطابق چلایا جائے، پورا پاکستان سن لے ایک رکن قومی اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ68 ہزار روپے ہے، لیکن یہاں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جن کا سٹائل بادشاہوں والا ہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں، سڑکوں پر آئیں توکرفیو لگ جاتا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا اس ملک میں سب سے پہلا آئینی حادثہ ایک جج نے کیا تھا جس نے نظریہ ضرورت کو درست قرار دیا تھا، سب سے پہلی سیاسی شہادت بھی عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگا کر اور نواز شریف کی آئینی شہادت بھی عدلیہ نے کی۔ سیاستدانوں میں آج بھی ایسے لوگ ہیں جن کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ مجھے چوہدری پرویز الہی نے خود بتایا کہ میں ایک بیوروکریٹ کی بیٹی کی شادی میں گیا وہاں میرے حلقے کا ایک بندہ سلامیاں اکٹھی کررہا تھا میں نے پوچھا کہ اب تک کتنی سلامی اکٹھی کرلی ہے جس پر اس نے جواب دیا کہ72 کروڑ روپے اکٹھے کرلیے ہیں، ابھی میٹر جاری ہے۔  جبکہ اسی بیوروکریٹ کی پہلی بیٹی کی شادی پر ایک ارب 20 کروڑ روپے اکٹھے ہوئے تھے جبکہ زیور اورگاڑیاں اس کے علاوہ تھیں۔ کیا کسی نے اس 21 یا 22 ویں گریڈ کے افسر سے پوچھا، ہمیں تو 2  منٹ نہیں لگتے پکڑتے ہوئے، 90،90روز کے ریمانڈ دیے جاتے ہیں، اور ہمیں بتاتے ہیں کہ اس ملک کی حکمرانی کیسے کرنی ہے۔  پاکستان بنانے والے عمران خان کی طرح سپانسرڈ لوگ نہیں تھے، جیل بھرو تحریک اب فلاپ ہوچکی ہے، اب ڈوب مرو تحریک چلائیں، اس وقت ساری نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں، پہلے کہتے تھے کہ امریکا نے سازش کی، اب کہتے ہیں کہ امریکا نہیں جنرل باجوہ نے سازش کی، جنرل باجوہ نے تو نواز شریف کو جیل میں ڈالا تھا، اس شخص کی صورت میں قوم پر عذاب لے کر آئے۔ خواجہ آصف نے سوال کیا کہ کیا عمران خان کی ابھی تک کوئی میڈیکل رپورٹ آئی ہے؟۔ اپنے ہی ہسپتال گئے، ایک مہینے میں تو چھت کا لینٹر بھی اتر جاتا ہے، ان کی ٹانگ کا پلاسٹر 6 مہینے میں بھی نہیں اترا،  قوم پشاور اور کراچی میں بہنے والے خون کے بارے میں سوالات کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب بھی شہادتیں ہورہی ہیں، کسی کا بھائی، بیٹا، شوہر یا  والد شہید ہوتا ہے۔ نور عالم خان اسلام آباد کلب کا آڈٹ کرنا چاہتے تھے، انہیں نہیں کرنے دیا گیا۔

مزیدخبریں