تحریر:کامران نسیم بٹالوی
(عنوان کالم:نسیم سحر)
قومی سیاسی اکھاڑے میں جاری دھینگا مشتی اور قومی و صوبائی انتخابات کی حتمی تاریخ کے فیصلے سے بادی النظر سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ کے حصول کی دوڑکا آغاز ہو چکا ہے، ویسے تو یہ دوڑتب ہی شروع ہو جاتی ہے جب تازہ تازہ الیکشن اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیںجس کے نتیجے میں ابھی منتخب شدہ نمائندگان حلف ہی نہیں اٹھا پاتے کہ ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔جس طرح ہر ملک کا سو شو کلچر مختلف ہوتا ہے اسی طرح سیاسی کلچر بھی ایک دوسرے سے کسی نہ کسی حد تک مختلف ہوتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ خود سیاسی جماعتوں کے لیے شدید آزمائش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران سیاسی جماعتوں کا خود قواعدو ضوابط کی دھجیاں اڑانا ہے۔یہاں ٹکٹ کی تقسیم کاری کے دوران قومی سیاسی جماعتیں اور ان کی مرکزی قیادت ٹکٹ کے خواہش مند کو تجربہ، ساکھ، سیاسی بصیرت اور سینیئر شپ کے طے شدہ معیار کو پیمانہ مقرر کرنے کی بجائے اقربا پروری اور بھاری بھر کم قیمت کے پلڑے میںتولتی ہے۔جسے’’ پارٹی فنڈ ‘‘کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پارٹی فنڈ کی صورت میں جو امیدوار جتنا زیادہ مال خرچ کرے گا وہ اتنا ہی اپنے لیڈر کا منظور نظر ہو جائے گا۔اس ضمن میں سیاسی کارکنان کی قربانیاں گئیں تیل لینے! یہی وجہ ہے کہ ہر انتخاب کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم کے اس کھیل میں ۔ سیاسی جماعت جب قواعدو ضوابط سے فرار اختیار کرتی ہے تو اس کے اندر تنظیمی ٹوٹ پھوٹ اورنئے ہم خیال گروہوں کی تشکیل کا ایک اٹوٹ عمل بن جاتا ہے جو کہ نہ صرف اس سیاسی جماعت کو کمزور کرتا ہے بلکہ قومی سیاسی دھارے میں کمزوری پیدا کرتا ہے۔لیکن بات پاکستان کے سیاسی کلچر پر ختم نہیں ہوتی۔ہمارے ہاں سر کردہ سیاسی جماعتوں کے باہمی سیاسی کلچر بھی تضاد کا شکار ہیں۔جہاں ٹکٹوں کے اجرا ء کے لیے لیڈر شپ اور تنظیمی ضابطوں کے بھی اپنے اپنے پیرامیٹرز ہیں،لیکن ان پیرامیٹرز کی بنیاد مجموعی طور پرقیادت کی بدلتی ترجیحات، سیاسی چال بازیوں اور حکمتِ عملیوں کے ساتھ ساتھ مالی فوائد پرمنحصر ہوتی ہیں۔اہم چیز یہ ہے کہ پاکستان میںچند اور نمایاںسیاسی جماعتوں کو جہاںملک بھر سے نظریاتی ووٹ پڑتے ہیں وہیںوہ خوداندرون خانہ پارٹی نظریات کو کچلنے میں مصروف عمل ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ان مذ کورہ جماعتوں کے قائدین کی گردنوں میں اس قدررعونیت اور سریا پایاجاتا ہے کہ وہ بر ملا کہتے نظر آتے ہیںہم اگر اپنے حلقوں میں کسی جانور کو بھی کھڑا کر دیں تو وہ بھی جیت جائے گا۔جو کہ سراسر ایک غلط سوچ ہے۔اسی سوچ کی بنا پروہ اپنی جماعت کے ان داتا بنے ہوئے ہیں۔اور ٹکٹوں کے حصول کے لیے امیدوار کو انتہائی چاپلوس اور خوش آمدی ہونا پڑتا ہے۔اسے ہر آئے روز پارٹی سرگرمیوں میں فٹیکوں کو برداشت کرتے ہوئے جماعتی اللے تللوں کو بھی فیس کرنا ہوتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انتخابات لڑنے کے لیے امیدواروں کو معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہیے۔جس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک بجٹ متعین کر رکھا ہے لیکن بجٹ تو تب ہو گا جب الیکشن لڑا جائے گااور الیکشن تک پہنچنے کے لیے پارٹی ٹکٹ کی رسائی جماعت کے اندر امیدواروں کی باہمی دوڑاور پیسوں کے بے دریغ استعمال نے ٹکٹوں کی تقسیم کاری کو اتنا مشکل کر دیا ہے کہ جھولیوں میںکروڑوں روپے لیے پھرنے کے باوجود بھی بہت سے امیدوار پارٹی ٹکٹ کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کروڑوں اور اربوں کے انفرادی اخراجات اور سبقت کی دوڑ کا عوام پر کیا اثر پڑتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ سیدھی سی بات ہے کہ کروڑوں اور اربوں روپے انویسٹ کرنے والے کوئی صدقہ جاریہ نہیں کر رہے ہوتے وہ ٹکٹ کے حصول اور الیکشن میں جیت کے بعد اپنی سرمایہ کاری کی لاگت عوام سے سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ مطلب آجا کر عوام کو ہی بالواسطہ طور پر امیدواران کے پارٹی ٹکٹ کا خرچ اُٹھا نا پڑتا ہے۔درحقیقت یہ وہ تمام بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بالخصوص پاکستان میں لوئر مڈل یا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد انتخابات لڑنے کا خواب دیکھنا بھی ایک جرم تصور کرتے ہیں جس ملک میں الیکشن گیم کروڑوں سے نکل کر اربوں روپے تک پہنچ جائے وہاں ایک عام شہری کا کسی بھی حیثیت میں الیکشن لڑنا محض دیوانے کا خواب تصورکیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں روایتی جاگیردار،وڈیرے بزنس مین یا بیرونی پے رول پر کام کرنے والے ہی ہمیشہ کی طرح الیکشن لڑتے ہیں اور آگے آتے ہیںجس کے نتیجہ میں ہمارے ہاں ایوان زیریں یا ایوان بالاہمیشہ ہی متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے انتہائی ذہین و فطین اور اصل پالیسی سازوں سے محروم رہتے ہیں۔ترقی یا فتہ ممالک میں الیکٹرول نظام کے تحت سائنسدان ، انجینئر‘ ماہرین ِ تعلیم اور ماہرین معاشیات کو ایوان تک لایا جاتا ہے تا کہ وہ قوم کے بنیادی مسائل کو فوکس کرتے ہوئے پالیسیاں مرتب کریں جس سے ملک میں واقعی بہتری آجائے لیکن ہمارے ملک میں سیاست میں ایسے لوگوں کو لانے سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ہمیں زیادہ دور جانے کی بجائے پڑوسی ملک بھارت کے دارالحکومت دہلی کی سرکار کو دیکھ لینا چاہیے جہاں عام آدمی پارٹی کے کیچری وال نے طاقتور اور پیسے والے کے مقابلے میں سادگی سے الیکشن لڑ کر دوسری بار اپنی حکومت بنائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دہلی سرکار پورے بھارت کے لیے ایک ماڈل حکومت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کی بناء پر دہلی شہر کے دیرینہ اور کٹھن مسائل حل ہو پائے۔ کیا ہم بھی کیچری وال کی طرح الیکشن کو آسان اور سادگی کی طرف نہیں لے جا سکتے؟ٹکٹوں کے سلسلہ میں ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والوں کا انتخاب کرنے سے قبل سنجیدگی سے اس نقطہ کو ضرور ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ پارٹی ٹکٹ کو سینما ٹکٹ نہیں سمجھنا چاہیئے جسے پیسوں کی خاطر بلیک کر کے بیچ دیا جاتا ہے۔