پروفیسر محمد مظہر عالم
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور اس کا قیام محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ، ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست کے طور پر ہوا۔ ہماری بدقسمتی کہ قائداعظم /11 ستمبر 1948ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور ہم عوام سیاسی طور پر یتیم ہو گئے۔ علاوہ ازیں قائد اعظم کے رفقاء اور نوابوں کی زندگی ترک کر کے پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہوئے، لیاقت علیخان مصروفِ عمل ہوئے اور عملاً سادگی اختیار کی لیکن انہیں بھی /16 اکتوبر 1951ء کو شہید کر دیا گیا۔ وہ د ن اور موجودہ معروضی سیاسی حالات اس نہج پر پہنچا دئیے گئے ہیں کہ حکمران تو موج مستی میں مصروف ہیں۔ چند سیاستدان اقتدار میں ہیں جب کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کم و بیش چار سال اقتدار کے مزے لو ٹنے کے بعد پارلیمنٹ میں مخالفین کا مقابلہ کرنے کی بجائے میدان سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے نہ صرف خود بلکہ اپنے معتقدین کو سڑکوںپر لا کر اقتدار کی جنگ لڑنے میں مصروفِ عمل ہیں لیکن انہیں اس امر کا احساس نہیں ہے کہ وہ ریاست کو کمزور کر رہے ہیں اور ان سمیت سب اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے روبہ عمل ہیں۔ موجودہ ملکی سیاسی، معاشی، آئینی اور عمومی حالات کااگر ترتیب وار جائزہ لیں، تو سیاستدان خاص طور پر خدا کا خوف کریں اور وطنِ پاک کے وجود کے لیے ناسور نہ بنیں۔ وطن کے وجود سے ہماری سب کی بقاء کاانحصار ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران سیاستدانوں نے ملک میں جمہوریت کو راہیں خود مسدود کی ہیں۔ جمہوریت کی بقاء جمہور کے ساتھ ساتھ جمہور کی آراء کو مدِنظر رکھ کر ہی ممکن ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے مسلم لیگ کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ ملک کے آئینی سربراہ بن گئے تھے۔ ان کی جگہ چوہدری خلیق الرحمان کو مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے اس ہنگامی دور میں پارٹی کا سربراہ بنا لیکن عوام ہی غور کریں کہ اس کے بعد ہمارے ہاں کسی سیاسی جماعت نے جمہوری اقدار کو اپنی اپنی پارٹی میں رائج کیا؟۔ خاندانی، آمرانہ اور شخصی جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع خود حکمرانوں نے دیا۔ صنعتی خاندانی، جاگیردار، سرمایہ دار اور ان کے حاشیہ بردار اور اقربا جمہوریت کے پروردہ تو بنے لیکن جمہوریت کی حقیقی روح کو روایات کی بنیاد نہ بنا سکے۔ اس کے اثرات عوام میں سرائیت کرتے گئے جس کی وجہ سے لینڈ مافیا‘ بھتہ مافیا‘ ڈرگ مافیا بلکہ مافیاز ہی مافیاز ہرسو نظر آرہے ہیں۔ اگر چہ ہمارے سابق وزیراعظم‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اورجس طرح کھیل کے میدان میں انہیں شہرت ملی‘ وہ بلاشبہ قابل رشک ہے مگر انہوں نے بھی صرف پارلیمانی تاریخ کو پڑھنے کے بعد پارلیمانی آداب سے آگاہی حاصل نہ کی۔ پارلیمانی روایات اور کرکٹ کے میدان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان کی یاددہانی کیلئے انہی کے دور کا ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ 1978ء میں ساہیوال سٹیڈیم میں بھارت کے ساتھ ایک روزہ میچ میں ہمارے بالرز سرفراز نواز اور خود عمران خان کی تندوتیز بائولنگ کا بھارتی بیٹسمین مقابلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ ان کی بے بسی دیکھنے کے قابل تھی۔ دوران بیٹنگ وہ میدان چھوڑ کر ڈریسنگ روم میں بائیکاٹ کرکے چلے گئے۔ انٹرینشنل ایمپائر ز نے بھارتی بزدلی کوکھیلوں کے ضابطے کی خلاف ورزی کی بنا پر پاکستان کو فاتح قرار دیدیا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی بھارتی کرکٹ ٹیم کی سبکی ہوئی۔ میدان میں مقابلہ کرنا ہی بہادروں کا شیوہ ہوتا ہے۔ عمران خان نے اگر مغربی پارلیمانی روایات کو پیش نظر رکھا ہوتا تو شاید وہ پارلیمنٹ میں سرخرو ہوتے لیکن کیا کیا جائے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران اور بقیہ سب سابق حکمرانوں کو نہ تو وطن پاک کی سالمیت و استحکام اور نہ ہی عوام کے مسائل کا فکر ہے۔ ہمارے عوام کو فاقہ مستی میں کس نے دھکیلا ہے۔ ان سبھی نے مل کر‘ اگر وطن ہے تو ہم ہیں۔ ہمارے مسائل اگر اسی طرح بڑھتے رہے تو پھر جیل بھرو تحریک‘ یا انہیں اقتدار سونپنا ایک ہی بات ہے۔ عوام تو ایک آٹے کا تھیلا لینے کیلئے ٹرکوں کے پیچھے خوار ہوں۔ جبکہ ہمار حکمرانوں کو نہ کمانے‘ نہ لگانے اور نہ ہی کھانے کا فکر ہے۔ انہیں چاہیے کہ عوام کی برداشت کا اس قدر امتحان نہ لیں کہ وہ کل آپ ہی کی گردن دبوچنے پر مجبور ہو جائیں۔
سیاستدان وطن کے لئے ناسُور نہ بنیں
Feb 25, 2023