خالد کاشمیری
حمید نظامی ہندوستان میں فرنگی سامراج کے اقتصادی تسلط اور برہمن سماج میںعاجزی کی زندگی بسر کرنے والے مسلمانان ہند کے اس قبیلۂ قلم سے تعلق رکھتے تھے جو مسلم عوام کی ہر طرح کی غلامی سے نجات کے لیے زندگی بھر سرگرم عمل رہے۔ قلم کی حرمت کے پاسبانوں کی یہی وہ کھیپ تھی جس نے دو قومی نظریہ اور حضرت قائداعظم کی زیر قیادت چلنے والی تاریخ ساز تحریک پاکستان کو برصغیر کے چپے چپے کے مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بنانے میں بے مثال کردار ادا کیا ۔ حمید نظامی حضرت قائداعظمؒ کی پیروی اور تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال کے ارشادات کی روشنی میں اس پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانیوں میں سے تھے۔جسے بابائے قوم حضرت قائداعظم نے اپنا بازوئے شمشیر زن قرار دیا ہے۔ حمید نظامی مرحوم بلاشبہ بنیادی طور پر اخبار نویس تھے۔ اعلیٰ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے اس پیشے کو اختیار کیاتھا۔برصغیر میں گنتی کے جن دلیر، جرأت مند اخبار نویسوں نے اپنے دلوں میں بانی پاکستان کے عزم مصمم کی حرارت محسوس کی ایسے صحافیوں میں حمید نظامی سر فہرست سمجھے جاتے ہیں۔ اس راہ میں حمید نظامی کو جن نامساعد حالات سے دو چار ہونا پڑا اور جس جانفشانی اور عزم و ہمت کے ساتھ انہوں نے اس کا مقابلہ کیا ا ن کی خدمات سے تاریخ کے اوراق ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔
اکیسویںصدی کا دور صحافت اپنی نمودونمائش اور ظاہری رنگ و روغن کے باعث نظرنوازی کے پردہ میں عوام کے لیے دلچسپ اور تفریح طبع کا سامان تو مہیا کرتا ہے مگر مقصدیت کا جذبہ لے کر جس لگن وتڑپ میں ڈوب کر حمید نظامی نے خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میدان صحافت میں حق گوئی کے پرچم کو سر بلند رکھا، ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں بھی حمید نظام مرحوم کا نام صحافت میں قلم کی حرمت پر کبھی آنچ نہ آنے دے گا۔ قیام پاکستان کے بعد ایسا وقت بھی آیاکہ جب ارباب اختیار کی طرف سے عوامی امنگوں کے برعکس حکمت عملی کے نتیجے میں زیادتیوں، ناانصافیوں،اقرباپروریوںاور ریشہ دوانیوں کا معاملہ زبان زدِ عام ہوگیا اور ایسی خبریں اخبارات کے صفحات پر نمایاں ہو نے لگیں۔ اسی دوران مرکزی اور صوبائی حکمرانوں کی طرف سے اخبارات پر پابندیاں عائد کرنے کے قوانین نافذ کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا۔ حمید نظامی اس قسم کی صورتحال کو کب برداشت کر سکتے تھے ،قیام پاکستان کے بعد ملک میں ایوان اقتدار کے مکینوں کو بانی پاکستان کے سیاسی تصورات کی روشنی میں ملک کو چلانے کے لیے آزادی صحافت کی آزادی ان کی اولین ترجیح تھی۔
حمید نظامی کو جب زیردام لانے کیلئے ارباب حکومت نے دلکش ترغیبات سے نوازنے کی کوشش کی تو انہوںنے ایسی ترغیبات کو معمولی سی اہمیت بھی نہ دی۔ یہ حقیقت تاریخ کے اوراق پر بھی محفوظ ہے کہ1951ء کے عام انتخابات میں ملک میں جناح مسلم لیگ نے 25 سے زائد نشستیں حاصل کر لیں۔ ان انتخابات میں حمید نظامی نے میڈیا کے محاذ پر اپنے مؤقر جریدے روزنامہ نوائے وقت میںمسلم لیگ دولتانہ گروپ کی ریشہ دوانیوں کو بڑی جرأت اور ہمت کے ساتھ بے نقاب کرکے ان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ اس کے نتیجے میں حمید نظامی کو بعد میں نامساعد حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جب مسلم لیگ کی اکثریت حاصل کرنے پر میاں ممتاز دولتانہ کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا، انہوں نے اپنا منصب سنبھالتے ہی روزنامہ نوائے وقت کے سرکاری اشتہارات پر پابندی عائد کر دی اور چند ہی یوم بعد حمید نظام کو الاٹ شدہ امرت الیکٹرک پریس کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی۔ حمید نظامی اس بے رحمانہ حکومتی وار کو خنداں پیشانی کے ساتھ برداشت کر گئے۔ یہ اس حمید نظامی کی راہ میں برسراقتدار آنے والوں کی طرف سے بچھائے جانے والے کانٹوں کا معمولی سا تذکرہ ہے، جس نے ملک کے بانی حضرت قائداعظم کے ایماء پر تحریک پاکستان کو تقویت دینے کی خاطر صحافتی محاذ پر ہندو کانگریس کی مخالفت میں ایک صبر آزما جنگ لڑی تھی۔
حمید نظامی نے اپریل 1951ء کو امرت الیکٹرک پریس کی الاٹمنٹ کی منسوخی کے بعد نوائے وقت کی طباعت کے لئے پریس کی تبدیلی کی درخواست دی، مگر حکومتی اداروں کی طرف سے حمید نظامی کی حریت فکر کی مخاصمت میں ان کی اس درخواست کا جواب تک دینا گوارا نہ کیا گیا۔ اور نوبت یہ کہ 23 اپریل 1951ء کو ان کے جریدہ نوائے وقت کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا۔ حمید نظامی نے 26 اپریل کو اخبار کے ڈیکلیریشن کے لئے دوبارہ درخواست دی تو تقریباً سوا ماہ تک اس کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔ جبکہ اسی روز حمید نظامی نے حفظ ماتقدم کے طور پر ’’قندیل‘‘ مخزن‘‘ اور روزنامہ ’’ندائے ملت‘‘ کے ڈیکلیریشن کے لئے بھی درخواستیں دے دیں۔ چند یوم بعد قندیل اور مخزن کا ڈیکلیریشن تو مل گیا۔ مگر سیفٹی آرڈیننس کے تحت روزنامہ نوائے وقت کیلئے اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔
حمید نظامی کی زندگی کا یہ ایسا پرآشوب دور تھا۔ ذہنی پریشانیوں سے دو چارکرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی گئی۔ ستم اور ناانصافی کی انتہا بہ کی گئی کہ 21 مئی 1951ء کو روز نامہ نوائے وقت کا ڈیکلیریشن مظفر نامی ایک شخص کو دے دیا گیا۔ جب اس ظلم و زیادتی کی صدائے بازگشت ملک کے تمام اخبارات کے ذریعے زبان زد عام ہوگئی اور اس حکومتی اقدامات کے خلاف صدر کے احتجاج بلند ہوئی تو 26 مئی کو ڈائریکٹر تعلقات عامہ نے اس وقت کے انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر کے نام ایک خط لکھا۔جس میں کہا گیا کہ حمید نظامی نے نوائے وقت کے ڈیکلیریشن کے لئے کوئی درخواست ہی نہیں دی تھی۔ ارباب حکومت اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ ہر طریقے سے حمید نظامی کے لیے صحافت سے ان کے رشتے کو منقطع کرنے کے حربوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے تھے۔ اسی دوران حمید نظامی نے روزنامہ جہاد نکال لیا جس کے ذریعے حکومتی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا پردہ چاک کرنا شروع کر دیا۔ مگر حکومت نے 28 جولائی 1951ء کو جہاد کے پرنٹر شریف حسین سہروردی کو پولیس کے ذریعے دھمکیاں دیں اور کچھ دلکش ترغیبات سے بھی نوازا جس کے نتیجے میں شریف حسین نے اپنے پریس میں ’’جہاد‘‘ چھاپنے سے معذرت کر لی۔ ایسے حالات میںحمید نظامی کا دل گرفتہ ہو جانا فطری امر تھا۔ مگر انہوں نے حوصلہ نہ ہارا اور پریس کی تبدیلی کے لئے درخواست دے دی مگر اس کے جواب کے لیے وہ ایک ماہ تک انتظار کرتے رہے۔
بالآخر کچھ یہی خواہ اور محب وطن دوستوں کی وساطت سے یکم ستمبر1951ء کو مظفر نامی شخص نے عدالت میں جا کر نوائے وقت کی اشاعت حمید نظامی کے سپرد کرنے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ اسی روز پنجاب پولیس کی بھاری نفری نے اس کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ حمید نظامی کے لیے یہ صورت انتہائی پریشان تھی۔ شہر بھر اور مضافات کے درودیوارو پر یہ اشتہارات لگوائے جا چکے تھے کہ 2 ستمبر1951ء کو حمید نظامی کی زیرادارت روزنامہ نوائے وقت دوبارہ منصۂ شہود پر نمودار ہوگا۔اسی اضطرابی کیفیت میں انہیں کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ نوائے پاکستان کے پبلشر حاجی محمد شریف سے مل کر مشورہ کیا جائے۔ حمید نظامی دوستوں کیساتھ حاجی شریف سے ملے تو حاجی شریف نے یہ کہہ کر حمید نظامی کا دل جیت لیا کہ نظامی صاحب’’نوائے پاکستان‘‘ کو آپ اپنا اخبار سمجھیں جب چاہیں نکال لیں۔ اس طرح2 ستمبر1951ء کو حمید نظامی کی زیر ادارت روزنامہ’’نوائے پاکستان‘‘ انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ منظر عام پر آیا۔
16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے جلسہ عام میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین نے جب گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو ان کی کابینہ کے رکن وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے لاہور میں مدیرانِ جرائد کو چائے پر بلایا۔ ان مدیرانِ جرائد میں یعقوب خان (سول اینڈ ملٹری گزٹ)، مولانا اختر علی خان (زمیندار)، مظہر علی خان (پاکستان ٹائمز)، پروفیسر سرور (آفاق)، حبیب اللہ … (احسان)، طفیل احمد (امروز)، نذیر بیگ (سٹار)، آغا شورش کاشمیری (چٹان)، حمید نظامی (نوائے پاکستان) اور ملک تاج الدین (ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان) شامل تھے۔
اس محفل میں مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے جب حکومت اور پریس کے مابین بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو حمید نظامی نے ان کی تقریر کے بعد واضح کیا کہ حکومت کو پریس کے بارے میں رویہ بدلنا ہوگا۔ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت کسی اخبار کے خلاف نہیں سوائے اُن اخبارات کے جو اینٹی نیشنل ہیں۔ اس پرحمید نظامی نے سخت احتجاج کیا۔جس پر ڈاکٹر اشتیاق قریشی کا کہنا پڑا کہ میرا مطلب نوائے وقت نہیں۔حمید نظامی مرحوم نے واضح کیا آپ لوگوں سے انصاف کی کوئی امید نہیں، مرکز کے سیفٹی آرڈیننس کے ذریعے صوبائی حکومتیں اخبارات کا گلا گھونٹ رہی ہیں جب اعتراض ہوتا ہے تو کہہ دیتی ہیں کہ ہم نے صوبائی سیفٹی ایکٹ استعمال نہیں کیا۔
حمید نظامی نے ارباب حکومت کی سمت سیدھی رکھنے اور انہیں حصول پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ پالیسیاں اختیار کرنے کا پابند کرانے کی خاطر صحافت کے محاذ پر حرص، ہوس اور طمع کے زمانے میں بھی لالچ یا خوف میں آئے بغیر سرفروشانہ کردار ادا کیا۔ ایوب خان کی مارشل لاء کے خلاف مجاہدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اسے شکست دے کر جان ہار دی مگر زندوں میں شمار ہوئے۔حمید نظامی مرحوم نے تو وقت کے آمر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کے منہ پر واشگاف الفاظ میں مارشل لاء کے خلاف اور جمہوری حقوق کی بحالی کی بات کرنے سے کبھی گریز نہ کیا اور ان پر واضح کردیا آپ کو پسند نہیں تو آپ اخبار بند کر سکتے ہیں۔ بالآخر حمید نظامی ایوب خان سے ان کے آئین میں عوامی حقوق کی بحالی کی شقیںشامل کرانے میں کامیاب ہوئے۔
آپ کی رحلت کے بعدمعمار نوائے وقت مجید نظامی جنت مکانی، خلد آشیانی نے ادارہ نوائے وقت کی باگ ڈور انتہائی نامساعدحالات میں سنبھالی مگر اپنی محنت، لگن، جذبے سے اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ انہیں نصف صدی سے زیادہ عرصہ ادارہ کی ادارت کا شرف حاصل رہا اور انہوں نے جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کے طویل ادوار اور سیاسی اُتار چڑھاؤ دیکھے لیکن اس دوران کسی دباؤ، لالچ اور مصلحت کو قریب نہ آنے دیا اوراس ادارہ کو مقبولیت کی معراج تک پہنچایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔