سانحہ بارکھان  کے خلاف  جماعت اسلامی خواتین کا مظاہرہ


کراچی (اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے تحت جمعہ کو سانحہ بارکھان اور بلوچ عورتوں پر ظلم کے خلاف کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ، جس میںخواتین نے متاثرہ خاندان اور مظلوم عورتوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کیااور مطالبہ کیا کہ سانحہ بارکھان کے ذمہ داران اور ملوث مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ خواتین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے،جن پر ’’ حکمرانو! یوم خواتین پر تقاریر نہیں،خواتین کو احترام اور تحفظ دو، سانحہ بارکھان، کب تک یہ ظلم جاری رہے گا، مظلوم خاتون کو انصاف دو، ظالم جاگیر داروں، وڈیروں، کرپٹ سرمایہ داروں کا احتساب کرو، ملک میں انصاف اور قانون کے رکھوالے کہاں ہیں؟ مجرم کو جانتے ہوئے بھی نامعلوم کے خلاف ایف آئی آر کیوں؟کمزور اور طاقتور کے لیے الگ الگ قانون کیوں؟ سمیت دیگر نعرے درج تھے ۔نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مروجہ نظام سانحہ بارکھان کا ذمہ دار ہے۔ ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے جو اپنے سے کم تر پر ظلم ڈھا رہی ہے ۔ بلوچستان کے ظالم سردار کے حکم پر جھوٹی گواہی دینے سے انکار پر 2 بچوں اور 1 عورت کو قتل کردیا گیا جوانتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ سانحہ بارکھان میں ملوث مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا احتجاج ان ظالموں کے خلاف ہے جو 75 سال سے ملک پر قابض ہیں۔ کراچی کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں خراج تحسین کی مستحق ہیں جنہوں نے  بڑی تعداد میں سانحہ بارکھان کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی اور مظلوم خاندان اور خواتین سے اظہار یکجہتی کیا ۔  مظاہرے میں حلقہ خواتین پاکستان کی ڈپٹی سکریٹری عطیہ نثار کی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا آج کاا حتجاج بلوچستان کے ارباب اقتدار کو پیغام ہے کہ بلوچستان کی خواتین کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ ہم ملک میں موجود بیوروکریسی کو بھی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ملک سے ظالمانہ نظام ختم کیا جائے۔ حلقہ خواتین جماعت اسلامی مظلوم عورتوں کے ساتھ ہے اور ان سے اظہار ہمدردی کرتی ہے۔مظاہرے میں حلقہ خواتین پاکستان کی ڈپٹی سیکریٹریز رعنا فضل، تسنیم معظم ،ناظمہ صوبہ سندھ رخشندہ منیب ،نائب ناظمہ صوبہ عائشہ ودود،ناظمہ کراچی اسماء سفیر ،معتمدہ کراچی فرح عمران ،سیکریٹری اطلاعات فریحہ اشرف ،و دیگر خواتین ذمہ داران بھی موجود تھیں۔

ای پیپر دی نیشن