پاکستان کو شدید معاشی للکار کا سامنا ہے ، جس کی وجہ سے خوراک ، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، سیاسی بحرانوں اور پی ٹی آئی کی حکومت کی بر طرفی نے سیاسی ماحول کو گندلا کر دیا ہے ، جس کی وجہ سے ملک معاشی ابتری کے ماحول میں داخل ہونے کا باعث بنا ہے ، پی ڈی ایم کی حکومت نے بنیادی اور فکری اہمیت کا محور سیاسی بقاء کو مقدم رکھا اور معاشی بحران پسِ پشت چلا گیا ۔
روس اوریوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ، گزشتہ مدت کی حکومت کی طرف سے ضرورت سے زیادہ بیرونی قرضوں کے حصول سے ملک میں ڈیفالٹ کا خدشہ بڑھا اور ملکی کرنسی کی قدر میں روز بروز تنزلی رونما ہوئی ، کرنسی کی نسبت سے ملکی درآمدات زیادہ مہنگی ہوئیں ، 2022 ء تک اشیائے خوردو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ افراطِ زر تواتر سے بلند ترین سطح پر تھا ۔
ناقص حکمرانی اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر رہی کہ ابتدائی اور درمیانی آمدنی کے حامل ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم پیداواری فی کس کے نتیجے میں ادائیگیوں کے توازن میں بحران پیدا ہو گا ، یہی وجہ ہے کہ ملک اتنا زر مبادلہ کمانے سے قاصر تھا ، کہ درآمدات کے لئے فنڈ مہیا کر سکے ،پی ڈی ایم حکومت نے ملک کو در پیش سنگین مالیاتی بحران کو حل کرنے کے لئے انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ( آئی ایم ایف ) سے اس وقت مذاکرات کئے جب ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر تقریباً خالی ہو چکے تھے ، اس وقت پاکستان کے پاس ایک ماہ کی درآمدات کے لئے درکار ڈالر ہی تھے ، اور بیرونی قرضوں کی قسط ادا کرنے میں شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا ۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال2023-24 ء کی پہلی سہہ ماہی( جولائی تا ستمبر) میں اوسط افراطِ زر 29.04 فیصد رہی ، جو کہ 1975 ء کے بعد مہنگائی کا ایک نیا ریکارڈ ہے، حالیہ انتخابات کے انعقاد کے بعد ملک کی معیشت سے منسلک خدشات بڑھتے جا رہے ہیں ، سیاست دانوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی سے مہنگائی سے ستائے عوام بڑی مشکل سے گزر اوقات کر رہے ہیں ، جو نہیں کر پاتے وہ خود کشی کرنے پر مجبو ر ہو جاتے ہیں ، مہنگائی ملک کی بلند ترین سطح تک پہونچ گئی ہے ،ماہرین معاشیات کے مطابق آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا ، اکتوبر 2023 ء تک مہنگائی میں اضافے کی شرح 31فیصد سے تجاو ز کر چکی تھی۔
ملک کی ٹیکسٹائل صنعتیں برآمدات کی کل آمدنی میں 60 فیصد حصہ دیتی ہیں جب کہ ملک میں شدید معاشی بحران اور مہنگائی کی وجہ1600 صنعتوں کے بند ہو جانے سے ایک اندازے کے مطابق 7 لاکھ مزدور اپنی ملازمتوں سے فارغ ہو گئے۔
اس معیشت کے سائے میں ہمدم
اچھی صورت ہے وہ بھی جینے کی
جس میں دو چار دن کی روٹی ملے
اور سز ا سال چھ مہینے کی
حالیہ گیلپ پاکستان کے سروے میں 47 فیصد پاکستانیوں نے خراب ملکی معیشت بپر اپنی تشویش کا اظہار کرتے کہا کہ دس سال پہلے کی نسبت ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ، سروے 03 سے 18 جنوری 2024 ء کے درمیان کیا گیا تھا ، سروے میں تقریباً ہر دوسرے پاکستانی نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ معیشت ماضی کے مقابلے میں مزید خراب ہوئی ہے بہتری نہیں آئی ، پاکستان کی غیر یقینی معاشی صورتِ حال اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ بچوں کی تعلیم جاری رکھ سکیں گے کہ نہیں اور اپنے گھرانے کا چولہا جلا پائیں گے کہ نہیں ۔
فروری 2024 ء اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا کہ ’’ ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 5 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی ہے ، ترجمان اسٹیٹ بینک کے مطابق غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 8 ارب 21 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ نجی بینکوں کے پاس غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 5 ارب 4 کروڑ ڈالر موجود ہیں ۔
عالمی رینکنگ ایجنسی ’’ فچ‘‘ نے پاکستان کی معاشی درجہ بندی پر رپورٹ جاری کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ’’ پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں ، اور اس غیر یقینی کی صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف کا پروگرام طوا لت کا شکار ہو سکتا ہے، امدادی اداروں اور ملکوں سے فنڈنگ میں تاخیر سے اصلاحات کا عمل شدید متاثر ہونے کے امکانات ہیں، یاد رہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام مارچ2024 ء میں ختم ہو جائے گا ، لہذا آئی ایم ایف کے ساتھ نیا پروگرام پاکستان کی کریڈٹ رینکنگ بہتر کر سکتا ہے ، رپورٹ میں پاکستان کی معاشی صورتحال کاموازنہ کیا گیا کہ فروری 2024 ء میں پاکستان کے خالص زر مبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر ہیں جب کہ فروری 2023 ء میں پاکستان کے خالص زر مبادلہ کے ذخائر 29 ارب ڈالر تھے ۔
ان تمام عوامل کے علاوہ آئی ایم ایف نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت منصوبوں کی شفافیت پر اعتراض کیا ہے ، کہ پی ایس ڈی پی کے تحت ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی مکمل معلومات دستیاب نہیں اور ان منصوبوں میں شفافیت لانے کی اشد ضرورت ہے ۔ملک میں سیاسی عدم استحکام خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے ، معاشی چیلنجز بڑھ گئے ہیں انہیں عارضی طو پر نہیں چلایا جا سکتا ،ایک ادارے یا مالیاتی فنڈ سے قرض لے کر دوسرے مالیاتی ادارے کو دینے سے ملک کا معاشی نظام دیوالیہ ہوجائے گا ، لہذا پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا اوران وسائل کو بہتر سے بہتر جدید سائنسی طریقے اپنا کر مؤثر اندازسے بروئے کارلایا جا سکتا ہے۔