کیا ’’سیاسی کھیل‘‘ اسی طرح جاری رہے گا؟

قرضوں میں جکڑے ہوئے پاکستان میں ہم نے اگرچہ حالیہ انتخابات پر اربوں روپے خرچ کر ڈالے لیکن افسوس صد افسوس کہ ملک میں نہ ہی جمہوریت اور جمہوری اقدار مضبوط ہوئیں اور نہ ہی سیاسی عدم استخکام میں کمی آئی۔ کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابی نتائج کو ـ"صدقِ دِل "سے قبول کرنے سے بھی انکاری ہے اور جہاں ان کا امیدوار جیتے "انتخابات منصفانہ"جہاں ہار جائے وہاں "دھاندلی " ہماری سیاسی جماعتوں کی اس دو عملی نے ملک میں سیاسی انتشار، کشیدگی اور سیاسی جنگ کو فروغ دیا ہے آپ انتخابات میں کامیاب ہونے والے اُمیداواروں کے مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے مسلے کو ہی لے لیں ۔ اگر کوئی کامیاب آزاد اُمیدوار ان کی اپنی پارٹی میں شامل ہو جائے تو یہ اس کے ضمیر کی آواز ہے اوراگریہی کامیاب رکن ان کی مخالف پارٹی میں شامل ہو جائے تو اسے دولت کی چمک "قرار دینے میں یہ قطعاًدیر نہیں کرتے۔ حقیقت یہ کہ ہمارے سیاست دان اپنے"ذاتی سیاسی مفاد"کے لیے صرف اپنے لیے ہی "لیول پلینگ فیلڈ"کا نعرہ لگاتے ہیں انہیں عوام کے احساسات ، مشکلات، جذبات اور مسائل سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا ، یہ بھی تلخ حقیقت ہے ہمارے ہر برسرِ اقتدار آنے والے حکمران نے عوام کے دیرینہ مسائل غربت مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کرنے اور ملک کو معاشی طور مضبوط بنانے کے لیے "رتی بھر "بھی کام نہیں کیا۔ یہ ایک دکھ بھری داستان ہے کہ اس نگران حکومت نے تو اپنے مینڈیٹ صاف شفاف آزادانہ ، غیر جانبدارانہ  اور منصفانہ انتخابات کروانے کی طرف برائے نامہ تو جہ دی اور سارا  زورعوام پر "مہنگائی کے بم"گرانے پر لگا دیا آئی ایم ایف سے قرضوں کی اقساط لینے کے چکروں میں مختصر سی مدت میں پٹرول ڈیزل گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کرنے کے اپنے مشن کو جاری و ساری رکھا ۔ نگران حکمرانوں نے تسلسل سے غیر ملک دورے بھی کئے‘ بیرونی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے دل کھول کر قرضے بھی لیے ملک میں ریکارڈ انتظامی تقرریاں تبادے بھی کیئے، ریکارڈ ترقیاتی منصوبے بھی شروع کئے اور اپنے دور اقتدار کا با اختیار ، لا محدود اور طویل دورانیہ "بھر پور انداز"میں گزارا جس کی دِن رات میڈیا نے بھر پور کوریج بھی کی یہ حقیقت ہے کہ نگران دور حکومت میں جہاں مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا وہاں لا قانونیت میں بھی اضافہ ہوا اور لا تعداد پولیس  مقابلے بھی ہوئے ، ایک مخصوص سیاسی جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں کو "رگڑا" بھی لگایا گیا اور کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے لیکر اب تک پولیس اور ان کارکنوں کے درمیان مسلسلـ"آنکھ مچولی" جاری ہے افسوس اس بات کا کہ اس سارے سیاسی دنگل اور اب کرکٹ کے میلے میں ہم عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کے نہتے اور مجبور و معصوم مسلمانوں پر ہونے والے"یہود و ہنود"کے وحشیانہ ، ہولناک اور دردناک مظالم کو بھی فراموش کر چکے ہیں اور سب کی توجہ صرف اس طرف لگی رہی کہ کس جماعت کی حکومت بنے گی کون صدر اور کون وزیرِ اعظم بنے گا کامیاب ہونیوالے کا آزاد اُمیدواروں کا ٹھکانہ کہا ں ہو گا، دیوار  کے ساتھ کون لگے گا۔ اے مظلوم فلسطینوں ، اے مجبور و محکوم کشمیریوں آپ کے دکھوں تکلیفوں  مصائب و الام کو بھول کر ہم سب سیاست اور کرکٹ کے کھیل میں ڈوب چکے ہیں ہمیں معاف کرنا اور اپنی آزادی کی جنگ اسی بہادری اور جرات کے ساتھ جاری رکھنا ۔ مسلم اُمہ سمیت ہم سب آ پ کے لیے کچھ نہ کر سکے  اللہ آپ کو اِن بھیانک مظالم سے محفوظ رکھے اور آپ کی خصوصی مدد فرما کر ہمیشہ اپنی پنا ہ میں رکھے (آمین) تو بات ہو رہی تھی جمہوریت جمہوریت کے کھوکھلے نعرے لگانے والے سیاستدانوں کی جن میں نہ صبر ہے نہ برداشت اور نہ ہی تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت ،  عوام کی خدمت کرنا اور عوامی مسائل کو حل کرنا ان کی کتاب میں بھی نہیں ہے یہ موروثی سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی ہی وفاداروں ، نمک خواروں اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کے قربانی کا بکرا بنانے سے بھی نہیں ہچکچاتے ، عوام انتخابی مہم کے دوران اور پھر  8فروری کے انتخابات کے بعد سے اب تک کے اپنے ان سیاستدانوں کے درمیان "اقتدار کے لیے کھلی جنگ کے مناظر کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ساتھ میں اپنی قسمت کو بھی کوس رہے ہیں  یقینا یہ ہمارے سیاست دان ہیں جو اقتدار کے حصول کے لیے اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کی خواہشات ، احساست تو قعات اور مطالبات کو  پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔ چشم ِ فلک نے بھی یقینا یہ افسوس ناک مناظر دیکھے ہونگے کہ ذاتی سیاسی مفادات کے لیے آگ اور پانی کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور کس طرح چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے ، نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں کیونکہ ان کو اُس وقت صرف  "ـ اقتدارکی کرسی"ہی نظر آتی ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ مہنگائی کی سونامی میں ڈوبی عوام سے ہمارے حکمران مسلسل "مزید قربانیاں" دینے کا ہی تقاضا کرتے ہیں لیکن کیا ہمارے ان سیاست دانوں نے کبھی خود قربانیاں دی ہیں ؟اس کا جواب صرف ایک ہے کہ "کبھی بھی نہیں" یہ تو اپنے سیاسی مفادات ، مالی و دیگر مراعات کے لیے بھی یک جان ہو جاتے ہیں اور عوام کو آگ کے دریا عبور کرنے اور سمندر جیسے بڑے آنے والے مسائل ، جیسے ڈائیلاگ سناتے رہتے ہیں حالانکہ پاکستان کی عوام گزشتہ 78سالوں سے ہر روز قربانی ہی دیتی چلی آرہی ہے اور اب ان کی "بس بس "  ہوچکی ہے اے سیاست دانوں کیا آپ کو قیام پاکستان کے مقاصد ، حضرت علامہ اقبال حضرتِ قائدِاعظم کے فرمودات ، جدو جہد اور مسلمانان برصغیر کی لازوال قربانیوں کا "رتی بھر"بھی احساس نہیں ؟ یاد رکھو روز قیامت ہم سب کو اپنے اپنے اعمالوں کا جواب ضرور دینا پڑے گا  جس سے فرار ممکن نہیں ہوگا  لہٰذا آج ہی ہم سب اپنا اپنا قبلہ درست کرلیں، اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ار اس ملک میں اسلامی نظام کا مکمل نفاذ کر کے اللہ سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کر دیں کیونکہ اسی میں  یقیناہماری نجات بھی ہے اور فلاح بھی۔ پھر دیر کس بات کی ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن