مرزا غلام نبی جانباز (جو جانباز مرزا کے نام سے مشہور تھے) مجلس احرار اسلام کے رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے بہت اچھی آواز پائی تھی اور اپنے خوب صورت ترنم کے ساتھ انقلابی اور باغیانہ کلام سے مجلس احرار کے جلسوں کو گرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے کم و بیش چودہ برس انگریز کی قید میں گزارے۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ امرتسر میں رہتے تھے اور تقسیم ہند کے بعد وہ لائل پور میں آباد ہوئے۔ مگر چند سال بعد ہی لاہور منتقل ہوگئے۔ انہوں نے اپنی زندگی پر ایک کتاب ’’آتش کدہ‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔ جب یہ کتاب میرے ہاتھ لگی اور میں نے ایک شام ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اپنے گھر کے باہر پڑے ایک بنچ پر بیٹھ کر اس کا مطالعہ شروع کیا تو کتاب مکمل کئے بغیر بنچ سے نہ اٹھا۔
1953ء کی تحریک ختم نبوت میں پولیس کے بہیمانہ تشدد میں اُن کا ایک بازو ٹُوٹ گیا تھا اور وہ اُسے گلے سے باندھ کر لٹکائے رکھتے تھے‘ جلسوںمیں نظم پڑھتے ہوئے جب میں اُن کے بازو کو گلے میں حمائل دیکھتا تو مجھے یہ انداز بہت اچھا لگتا۔ میرا بازو ماشاء اللہ بالکل درست تھا مگر کافی عرصہ میں سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں ان کی طرح بازو لٹکا کر نظمیں پڑھتارہا۔
جانبازمرزا نے احرار کی تاریخ پر دس بارہ جلدوں پر مشتمل ’’تاریخ احرار‘‘ کے نام سے کتابیں لکھیں۔ لاہورسے ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کا اجراء کیا۔ اس کے خریدار بنانے کے لئے وہ مختلف شہروں کے دورے پر نکلتے تو ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی آتے جہاں مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر چودھری عبدالرحمن اور مجلس کے جنرل سیکرٹری قاضی فیض احمد ظفر کے ہاں ان کا قیام ہوتا۔میرے والد صاحب کے پاس بھی وہ تشریف لاتے جو تحریک آزادیٔ ہند میں اُن کے جرأت مندانہ کردار اور قیدوبند کے مصائب جھیلنے کے باعث ان کی بہت قدر و تعظیم کرتے اور ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کا سالانہ چندہ بھی باقاعدگی سے ادا کرتے۔
جب ہم نے لائل پور سے سات روزہ وفاق کا اجراء کیا تو جناب جانباز مرزا بھی وفاق میں اشاعت کے لئے اپنی نظمیں ہمیں عنایت فرماتے جنہیں ہم بڑے اہتمام سے شائع کرتے تھے۔ 23 مارچ 1965ء کو لاہور سے ’’وفاق‘‘ شام کے اخبار کے طور پر شائع کرنے کا جب پروگرام بنایا گیا تو جناب جانباز مرزا بھی ہمارے مشیروں میں شامل تھے‘ اخبار فروش یونین لاہور کے عہدیدار تحریکِ آزادی کے ایک مجاہد ہونے کی وجہ سے جانباز مرزا کا بہت احترام کرتے تھے۔ لاہورمیں وفاق کی ایجنسی بھی جانباز مرزا کے مشورہ سے اخبار فروشوں کے ایک گروپ کو دی گئی۔
23 مارچ کو چونکہ قومی تعطیل تھی اس لئے جانباز مرزا کی ہدایت پر وفاق کا پہلا شمارہ 24 مارچ کی صبح کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اخبار آغاشورش کاشمیری کے چٹان پرنٹنگ پریس میں طبع ہوا‘ وفاق کا دفتر بھی چٹان بلڈنگ کی بالائی منزل پر تھا۔ رات گیارہ بجے طباعت شروع ہوئی اور ایک بجے رات فولڈنگ شروع ہونا تھی مگرجن خلیفہ صاحب (فولڈنگ کرنے والے گروپ کے سربراہ کو خلیفہ کہا جاتا تھا) کے ساتھ فولڈنگ کا کام انجام دینے کا معاملہ طے ہوا تھا وہ ابھی تک پہنچے نہیں تھے اور نہ ہی ان کے عملہ کا کوئی آدمی آیا تھا۔ دفتر کے کچھ لوگ اور پریس کے عملہ کے بعض اہل کار پریشان ہوکر خود ہی فولڈنگ کرنے لگے تھے‘ میں اور مصطفی صادق صاحب پریشانی سے اس صورت حال کا جائزہ لے رہے تھے‘ مرزا صاحب بھی کچھ کم پریشان نہیں تھے۔ اچانک انہوں نے بلند آواز سے ہم دونوںکو پکارا اور قدرے خفگی سے فرمایا کہ ہم یہاں کھڑے یہ تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں اور خود فولڈنگ کرنے والوں میں کیوں شامل نہیں ہورہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوںنے خود اخبار فولڈ کرنا شروع کردیا‘ ہم بھی مجبوراً فولڈنگ کرنے لگے اوراس طرح وفاق اور چٹان پریس کا پورا عملہ اخبار کی فولڈنگ کے کام میں جُت گیا اور صبح بروقت اخبار ہسپتال روڈ پر مارکیٹ میں پہنچایا جاسکا۔
جانباز مرزا ایک بہت باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ ہنسنا اور ہنسانا اور محفل کو کشت زعفران بنا دینا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد جب آغا شورش کاشمیری نے سات روزہ ’’چٹان‘‘ کا اجراء کیا تو وہ انہیں لوہاری دروازے سے دفتر چٹان آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ مرزا صاحب بھی لوہاری کی طرف جارہے تھے۔ انہوں نے آغا صاحب سے پوچھا آپ کہاں سے آرہے ہیںاور کدھر جارہے ہیں۔ آغا صاحب نے کہا میں دفتری کی طرف گیا تھا جس نے چٹان تیار کرنے میں تاخیر کردی تھی‘ آغا صاحب نے کہا چٹان 10 ہزار کی تعدادمیں چھپ رہا ہے۔ اس کم بخت دفتری نے پرچہ تیار کرنے میں تاخیر کرکے میرا بہت نقصان کردیا ہے یہ سن کر جانباز مرزا بھی آغا شورش کاشمیری کے ساتھ ہولئے اور دونوں لوہاری گیٹ میں اس دفتری خانہ میں پہنچ گئے جہاں چٹان تیار ہورہا تھا۔ آغا صاحب نے دفتری کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو جانباز مرزا بھی ان کے سُروں میں سُرملانے لگے۔
بالآخر عاجز آکر خلیفہ نے کہا کہ آغا صاحب! آخر دو ہزار کاپی تیار کرنا ہیں۔ یہ تیار ہوتے ہوتے ہی تیار ہوں گی۔ آغا صاحب نے خلیفہ کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو مزید کچھ کہے سُنے بغیر وہاں سے رخصت ہوگئے۔
مرزا صاحب بیان کرتے تھے کہ وہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد سائیکل پر مال روڈ سے گزر رہے تھے کہ جی پی او چوک کے قریب پولیس نے انہیں روک لیا‘ چونکہ ان کے سائیکل پر کوئی بّتی نہیں تھی اس لئے ان سے سائیکل لے کر اُن کا چالان کردیا اور اگلی صبح تھانے حاضر ہونے کی ہدایت کی۔ مرزا صاحب کی ساری رات پریشانی میں گزری کہ اب یہ مسئلہ کس طرح حل ہوگا۔ صبح ہوتے ہی وہ گھر سے سیدھے دفتر ’’چٹان ‘‘پہنچے ابھی آغا صاحب دفتر نہیں آئے تھے‘ انہوں نے متعلقہ تھانے کا نمبر معلوم کرکے تھانیدار کو فون کیا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ تھانیدار صاحب! میںسات روزہ تبصرہ کاایڈیٹر جانباز مرزا بول رہا ہوں‘ کل رات کچھ پولیس والوں نے میرے چپڑاسی کو روک کر اس کا چالان کردیا اور اس کی سائیکل بھی تھانے لے گئے۔
تھانیدار نے مرزا صاحب کی بات سُنی اوران سے کہا مرزا صاحب! آپ اپنے چپڑاسی کو بھیج دیں وہ آکر اپنا سائیکل لے جائے۔
یہ سُن کر مرزا صاحب خوش خوش تھانے پہنچے اور تھانیدار کو بتایاکہ مجھے تبصرہ کے ایڈیٹر جانباز مرزا صاحب نے بھیجا ہے۔ تھانیدار نے ایک کانسٹیبل کو بُلا کر ہدایت کی کہ وہ مرزا صاحب کے چپڑاسی کو اس کا سائیکل دے دے اور جاتے جاتے مرزا صاحب سے کہا کہ وہ میری طرف سے مرزا صاحب سے معذرت کردے اور ان کو میرا سلام کہے!
جانباز مرزا کا ’’ وفاق‘‘ اور پھر ’’ تجارت‘‘ کے دفاترمیں آنا جانا رہتا تھا۔ مجھے ان کا بے تکلفی کا انداز بہت بھلا لگتا تھا۔ میرے بزرگوں سے ان کے دیرینہ تعلق کے باعث میں ان کا احترام بھی بہت کرتا تھا‘ نواب زادہ نصراللہ خان‘ آغا شورش کاشمیری ‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا غلام غوث ہزاروی اورمولانا عبیداللہ انور سے بھی وہ بے تکلفی کے اپنے مخصوص انداز میں ہی بات چیت کرتے تھے۔ مجلس احرار اسلام کے رہنمائوں اور کارکنوں کا ایک مخصوص شعار تھا۔ وہ کھدر کے لباس‘ وضع قطع اور گفتگو سے ہی پہچانے جاتے تھے کہ وہ احراری ہیں۔
جانباز مرزا کا واحد ذریعہ معاش ان کا ماہنامہ تبصرہ یا وہ کتابیں تھیں جو وہ دن رات کی محنت سے مرتب کرتے تھے اور انہیں خود شائع کرکے خود ہی شہر شہر جاکر اپنے مداحوںمیں فروخت کرتے تھے‘جانباز مرزا تھے تو فردِواحد مگرکام وہ ایک پُورے ادارے اور ایک فعال انجمن کا کرگئے۔وہ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ‘چوہدری افضل حق‘مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی‘آغا شورش کاشمیری‘ ماسٹر تاج الدین انصاری اور شیخ حسام الدین کے قافلے کے ایک اہم رکن رکین تھے۔ افسوس کہ ان کی رحلت کے بعد ماہنامہ’’ تبصرہ‘‘ اپنی اشاعت جاری نہ رکھ سکااور ان کے بڑے بیٹے خالد جانباز کی جاں فشانی کے باوجود’’ تبصرہ‘‘ مالی مسائل کے باعث بندش سے دوچار ہوگیا۔