اتوار‘ 14 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 25 فروری 2024ء

سابق کمشنر اسلام آباد کا زبردست یوٹرن الزامات واپس لے کر معذرت۔
یہ ہوتا ہے اچانک انگڑائی لے کر بیدار ہونے والے ضمیر کا انجام۔ کیونکہ یہ بیداری بہت کم لوگ برداشت کر پاتے ہیں ورنہ اکثر تو شادی مرگ کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کے بعد یا تو ان کی مت ماری جاتی ہے جسے ہم دماغ کا کائوف ہونا بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب ہوش بحال ہوتے ہیں اور ضمیر کی بیداری ختم ہو جاتی ہے تو سب کچھ یاد آ جاتا ہے کہ کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان ہوا۔ مگر اس وقت تک سود و زیاں کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ایسا ہی کمشنر اسلام آباد کے ساتھ ہوا ہے جو اب ہوش و حواس میں واپس آ چکے ہیں۔ انہیں یاد آ گیا ہے کہ ان کی سرکاری مراعات تو اب ختم ہو چکی ہیں وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایسا انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنما کی دوستی میں کیا۔ اس پر تو 
کچی کلی کچنار کی کچا ہمارا دل 
خاک ایسی دوستی پر جو توڑا ہمارا دل 
کہنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ کوئی لیلیٰ مجنوں والی کہانی نہ ہیر رانجھا کی داستان عشق ہے۔ جس میں محبوب کی خاطر جان دی جاتی ہے اور حاصل کچھ ہوتا۔ اب چٹھہ صاحب کے لیے بھی فرہاد کی طرح تیشہ سر پر مارنے کے علاوہ کوئی راہ نہیں بچی ہے۔ اب سارے الزامات ان کے سر پر ہوں گے جس کی ظاہر ہے سزا انہیں بھگتنا پڑے گی جنہوں نے اسے استعمال کیا وہ آرام سے بیٹھ کر سارا تماشہ دیکھ رہے ہوں گے۔ انہوں نے جو کرنا تھا کر لیا۔ اب جو کچھ ہو گا چٹھہ کے ساتھ ہو گا۔ انہیں خود ہی شوق تھا ہیرو بننے کا مگر اب زیرو بن کر دیکھ لیں اس کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ ویسے ہی غالب نے نہیں تھا کہ ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘ سو اب لطف بدنامی اٹھائیں اور ساتھ ہی دوسروں پر الزام لگانے انہیں بدنام کرنے کی سزا بھی بھگتیں۔ امید ہے اب ان کا ضمیر ملامت بھی نہیں کرے گا بیداری تو دور کی بات۔ 
٭٭٭٭٭
راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں بسنت‘ ہوائی فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق درجنوں زخمی 
موسم بہار کا یہ روایتی تہوار جو کبھی برصغیر میں پتنگ بازی اور میلوں ٹھیلوں کی وجہ سے مشہور تھا بڑے ذوق و شوق سے منایا جاتا تھا۔ جب بسنت آئے تو محاورہ ہے ’’آئی بسنت پالا اڑنت‘‘ پنجاب کے کھیتوں میں ہر طرف سرسوں کے پیلے پھول سبز رنگ کے ساتھ مل کر عجب خوشنما منظر پیش کرتے ہیں۔ دل و دماغ اور روح تک سرشار ہو کر جھوم اٹھتی ہے۔ ایسے میں پنجاب کے گھبرو جوان میلوں میں کبڈی، والی بال، کشتی اور نیزے بازی کے علاوہ ہتھ جوڑی کے مقابلوں میں جی جان سے حصہ لیتے ہیں۔ پھر قیام پاکستان کے بعد پنجاب میں پتنگ بازی کو عروج حاصل ہوا تو لاہور بسنت منانے والوں کی جنت بن گیا۔ ہر سال دنیا بھر سے پتنگ بازی کے شوقین یہاں آتے، فضا پتنگوں سے بھر جاتی ہے ہر طرف سے بوکاٹا کی آوازیں آتی ہیں۔ مگر برا ہو اس دھاتی ڈور بنانے والوں کا اور ہوائی فائرنگ کرنے والوں کا‘جنہوں نے اس موسمی تہوار کو بھی خونی تہوار بنا دیا۔ ہر بسنت پر کئی نوجوان اور بچے اس قاتل ڈور اور گولیاں لگنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے پھر اس تہوار پر اپنے ہی مرکز یعنی لاہور میں پابندی لگی تو دوسرے شہروں میں اس کے منانے والوں نے ات مچا دی ہے۔ اب تو کوئٹہ اور پشاور میں بھی پنجاب کے شہروں کی طرح بھرپور بسنت منائی جاتی ہے۔ ہوائی فائرنگ کی بدعت بھی اس میں شامل ہو کر مزید جان لیوا ہو گئی ہے۔ گزشتہ روز راولپنڈی میں بسنت کے موقع پر ہوائی فائرنگ اور دھاتی ڈور کی وجہ سے ایک شخص ہلاک اور 40 زخمی ہوئے جو اس بات کا ثبوت ہے انتظامیہ ہوائی فائرنگ کرنے اور دھاتی ڈور بنانے والوں کیخلاف ایکشن لینے میں ناکام رہی ہے۔
٭٭٭٭٭
بانی پی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کو خط اور معیشت کی بہتری کا غم۔ 
یہ اچھی منطق ہے خان کی ایک طرف آئی ایم ایف کو خط لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ قرضہ نہ دو پاکستان کو۔ کیونکہ جب تک معیشت بہتر نہیں ہو گی قرض واپس کون کرے گا اور دوسری طرف خود ہی غیر ممالک سے آنے والے سرمایہ کاروں کو بھی ڈرا رہے ہیں کہ یہاں مت آئو۔ انہی کی مہربانی کی وجہ سے تارکین وطن کی طرف سے ترسیلات زر میں کمی کا سامنا ہے۔ اب جب خود پاکستانی معیشت کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے تو دوسروں کو کیوں الزام دیں۔ کم از کم اب خان جی ملک کی حالت پہ رحم کھائیں اور بیرون ملک وطن کی عزت اور ساکھ دائوپر نہ لگائیں۔ اختلافات اپنی جگہ سیاست اپنی جگہ ملک کی عزت اور معیشت اور وقار کا تقاضہ یہ ہے اس پر آنچ آنے نہ دی جائے ۔پہلے ہی ہم انکی بدولت چین کے صدر کے دورے کے التوا اور آئی ایم ایف کے حوالے سے بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اس لیے فی الحال جب تک خط کا متن سامنے نہیں آتا، کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اگر یہ خط واقعی قابل اعتراض ہوا تو اس پر قرار واقعی ایکشن لیا جانا چاہیے کیوں کہ سب سے پہلے پاکستان‘ اور کوئی بھی پاکستان سے زیادہ مقدم نہیں۔ جو اپنے کو یا کسی کو پاکستان سے زیادہ اہم سمجھتا ہے اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے پی ٹی آئی والے بھی اس حقیقت کو جلد تسلیم کر لیں گے کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں‘ ہمارا یہ ٹھاٹھ باٹ ہے۔ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ غلطی کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ نظام درست کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب پاکستان سلامت اور توانا ہو گا۔ لیڈر تو آتے اور چلے جاتے ہیں۔ ملک قائم رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭
مسلم لیگ اس مینڈیٹ پر کیوں حکومت بنا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن 
یہ بات مولانا فضل الرحمن کو قدرے تاخیر سے یاد آئی اور وہ بھی آدھی بات۔ اسے ہم آدھا سچ بھی کہہ سکتے ہیں پورا سچ وہ شاید کہنا نہیں چاہتے یا بتانا نہیں چاہتے۔ اگر ان کا یہ کہنا کہ مسلم لیگ نون نے وہی مینڈیٹ دوبارہ لیا جو 2018 ء میں لیا تھا تو کیا فائدہ حکومت کیوں لے رہی ہے۔ ویسے سچ یہ بھی ہے کہ مولانا نے بھی اتنی ہی نشستیں لیں ہیں جو 2018ء میں انہوں نے لی تھی تو پھر یہ دھاندلی دھاندلی کا شور کیسا کہ اس کریا برداشت کر والی بات یہاں بھی صادق آتی ہے۔ یہاں وہی صورتحال ہے جو سب کو بھگتنا پڑ رہی ہے بس فائدہ میں تو پیپلز پارٹی والے رہے ہیں۔ انہوں نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سندھ میں پہلے سے زیادہ کامیابیاں سمیٹ لیں۔ اس پر جے یو آئی (ف) اور جے ڈی اے سمیت قوم پرست چھوٹی بڑی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں کیوں انہیں پہلے جتنی سیٹیں بھی نہ مل سکیں جو بہرحال ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اس پر ان کا سیخ پا ہونا ان کا حق بھی ہے۔ رہی بات انہیں دیوار سے لگانے کی کچلنے کی تو جب وہ اسی مینڈیٹ کے ساتھ پچھلی حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے تو تب انہیں یہ خیال کیوں نہ آیا۔ اب غصہ میں وہ یہ بھول گئے کہ اس وقت کامل جو چار سال پی ٹی آئی والے انہیں ڈیزل ڈیزل کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج مولانا انہی کے ساتھ شیر و شکر ہو رہے ہیں اور اپنے پرانے اتحادیوں کا تمسخر اڑا رہے ہیں کہ وہ اس مینڈیٹ پر حکومت کیوں بنا رہے ہیں جبکہ اسی مینڈیٹ پر وہ ان کے ساتھ شریک اقتدار رہے ہیں۔ اس لیے ان کو زیب نہیں دیتا کہ ملک اور اداروں کے خلاف وہی زبان استعمال کریں جو منفی قوتیں استعمال کرتی ہیں۔ اب الیکشن کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا سب کا حق ہے مگر کم از کم زبان تو قابو میں رہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن