پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے نو منتخب ارکان کی حلف برداری کے ساتھ ہی ان دونوں اسمبلیوں کے جمہوری سفر کا آغاز ہوگیا ہے جبکہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے نو منتخب ارکان کی حلف برداری کے لیے اجلاس 28 فروری کو سہ پہر تین بجے طلب کیا گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ارکان کی حلف برداری کے لیے اجلاس جمعہ جبکہ سندھ اسمبلی میں ہفتے کو ہوا۔ پنجاب میں سپیکر سبطین خان نے نئے ارکان سے حلف لیا۔ ترجمان پنجاب اسمبلی کے مطابق، 371 کے ارکان میں سے 321 اراکین نے حلف اٹھایا جن میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے 193 اور سنی اتحاد کونسل کے 98 ارکان شامل ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے 13، پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے 10، استحکام پاکستان پارٹی کے 5 جبکہ تحریک لبیک پاکستان اور مسلم لیگ (ضیاء الحق) کے ایک ایک رکن نے حلف اٹھایا۔
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ پنجاب اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں ہی مسلم لیگ (ن) اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف خلاف شدید نعرے بازی کی۔ لیگی اراکین پارٹی قائد نواز شریف کی تصاویر اٹھائے ایوان میں پہنچے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی نامزد وزیراعلیٰ مریم نواز کی ایوان میں آمد پر لیگی اراکین نے شیر شیر کے نعرے لگائے۔ اجلاس کے آغاز پر ہی سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے مخصوص نشستوں کا معاملہ ایوان میں اٹھا یا۔ رانا آفتاب احمد خان نے کہا کہ سب جماعتوں کی مخصوص نشستوں کا اعلان ہوچکا ہے ہمارا اعلان ہونا باقی ہے، اس لیے حلف روکا جائے۔ اس معاملے پر ایوان میں تکرار شروع ہوئی اور بعد ازاں مخالفانہ نعرے بازی شروع ہوگئی، سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے مینڈیٹ چور کے نعرے لگائے جس کے جواب میں لیگی ارکان گھڑی چور کے نعرے لگاتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اراکین نعرے بازی کے دوران گھڑیاں بھی لہراتے رہے۔
حلف برداری کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس نئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے لیے ہفتے کے روز سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیا تھا۔ مذکورہ اجلاس تادمِ تحریر جاری ہے جس میں سپیکر کے لیے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ ملک محمد احمد خان اور سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچر اور ڈپٹی سپیکر کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ظہیر اقبال چنڑ اور سنی اتحاد کونسل کے معین ریاض قریشی کے درمیان مقابلہ ہے۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے مطابق، پولنگ کے لیے دو پولنگ بوتھ قائم کیے جائیں گے، کوئی بھی امیدوار رائے شماری سے قبل تحریری طور پر کاغذات نامزدگی واپس لے سکتا ہے۔ سپیکر منتخب ہونے کے بعد عہدہ سنبھالیں گے اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کرائیں گے۔
ادھر، سندھ اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کے روز ہوا جس میں 168 ارکان میں سے 145 نومنتخب اراکین نے حلف اٹھایا۔ نو منتخب ارکان اسمبلی سے سپیکر آغا سراج درانی نے حلف لیا۔ نومنتخب ارکان نے سندھی، اردو اور انگریزی میں حلف اٹھایا۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد اسمبلی کا اجلاس نئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے لیے اتوار کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ ایوان میں پیپلز پارٹی 114 ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 36 ارکان کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (فضل) کے ارکان نے احتجاج کے باعث اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
سندھ میں اسمبلی کے 4 ارکان کے معاملات مختلف وجوہ کی بناء پر مؤخر ہیں۔ پی ایس129 سے حافظ نعیم کی نشست کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا اور پی ایس 80 سے پیپلز پارٹی کے منتخب رکن عبدالعزیز جونیجو انتقال کر چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ میں خواتین کی لیے مخصوص 29 نشستوں میں سے 27 جبکہ اقلیت کے لیے 9 میں سے آٹھ نشستوں پر ارکان کے انتخاب کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ جن دو خواتین اور ایک اقلیتی امیدوار کا نوٹیفیکیشن تاحال جاری نہیں ہوا ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں جو مخصوص نشستیں ملی ہیں ان میںسے 20 خواتین جبکہ 6 اقلیتوں کی ہیں۔ اسی طرح، ایم کیو ایم کو خواتین کی 6 اور اقلیتوں کی دو مخصوص نشستیں ملی ہیں۔ جی ڈی اے کو خواتین کی مخصوص ایک نشست ملی ہے جس کے بعد سندھ اسمبلی میں ان کے ارکان کی مجموعی تعداد تین ہو گئی ہے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں نے نو منتخب ارکان کی حلف برداری کے بعد معاملات آگے کی طرف بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی دیگر دو صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے ارکان بھی حلف اٹھا لیں گے۔ پارلیمان میں نو منتخب ارکان کے آنے سے جمہوریت کی روایت مستحکم ہوگی اور ملک اور عوام کے مسائل حل ہونے کی امید بھی پیدا ہوگی۔ سیاسی قیادت نے عام انتخابات سے پہلے جلسے جلوسوں کے دوران عوام سے بہت سے وعدے کیے تھے، اب وقت آگیا ہے کہ انھیں اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانی چاہئیں تاکہ ان اقدامات کے ذریعے عوام کا جمہوریت، جمہوری اداروں اور ریاست پر اعتماد بحال ہوسکے۔