اشیاء خوردونوش کی قلت، کیا رمضان آ رہا ہے؟؟؟؟ 

تیار ہو جاو پاکستانیوں، ماہ مبارک آ رہا ہے، رمضان آ رہا ہے، رحمتوں، برکتوں والا مہینہ آ رہا ہے، نیکیاں کمانے، تعاون کرنے، خیال رکھنے، سحر و افطار میں رحمتیں سمیٹنے کے لیے تیار ہو جاو۔ جہاں اس ماہ مبارک میں لوگ نیکیاں اکٹھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منافع کمانے والے بھی متحرک ہوتے ہیں، مل مالکان، مختلف بڑے بڑے کاروبار کرنے والے، پھل سبزیاں بیچنے والے، اشیاء خوردونوش کے کاروبار سے منسلک افراد اوپر سے نیچے تک سب کے سب ناجائز منافع کے چکر میں نظر آتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان المبارک میں زیادہ پیسہ نہ کمایا تو کب کمائیں گے۔ سو جہاں نیکیاں کمانے کی خواہش رکھنے والے ہر وقت نیکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں وہاں پیسہ کمانے والے اس چکر نظر آتے ہیں۔ عام مارکیٹ میں چیزیں مہنگی ہوں تو اور بات ہے لیکن یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیاء کی قلت یا غیر معمولی انداز میں قیمتوں میں اضافہ بہت زیادہ حیران کن ہے کیونکہ یہاں تو براہ راست قیمتوں کو حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ کل ہی میںنے خبر دیکھی کہ یوٹیلیٹی سٹورز پر آٹا، چینی اور چاول عام مارکیٹ سے مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر بیس کلو آٹے کا تھیلا دو ہزار آٹھ سو چالیس روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ عام مارکیٹ میں اتنے ہی وزن میں آٹا دو ہزار سات سو بانوے روپے میں دستیاب ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی سیلا چاول عام مارکیٹ کی نسبت یوٹیلیٹی سٹورز پر ترپن روپے مہنگا ہے، عام مارکیٹ میں سیلا چاول تین سو سترہ روپے فی کلو دستیاب ہے جبکہ یوٹیلیٹی سٹورز پر فی کلو سیلا چاول تین سو ستر روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
سفید چنے بھی عام مارکیٹ کی نسبت یوٹیلیٹی سٹورز پر تیرہ روپے مہنگے فروخت ہو رہے ہیں، مارکیٹ میں سفید چنا تین سو اکانوے روپے فی کلو ہے جبکہ یوٹیلیٹی سٹورز پر سفید چنا چار سو پانچ روپے میں دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی بھی عام مارکیٹ کی نسبت نو روپے مہنگی بیچی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں آپ کو سبزیاں، پھل، خوردنی تیل، میدہ، بیسن سمیت کھانے پینے کی دیگر اشیاء کی ناصرف قلت ہو سکتی ہے بلکہ قیمتوں میں بھی غیر معمولی طور پر اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ روزے موسم گرما میں ہوں تو لیموں ہی نایاب ہو جاتا ہے، کبھی ٹماٹر کی قیمتیں آسمانوں تک پہنچتی ہیں تو کبھی کیلا اتنا مہنگا ہوتا ہے جیسے ڈالرز میں خریدے جا رہے ہوں۔ بہرحال یہ ہمارا المیہ ہے دنیا بھر میں مختلف مذاہب میں اہم مذہبی مہینوں میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں، کپڑوں، ادویات سمیت دیگر اہم اشیاء کی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے لیکن پاکستان میں یہ تمام چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور کمزور معیشت کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ سیاست دان اپنی لڑائیوں میں لگے رہے اور ملک میں عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی چلی گئی اس رمضان بھی ایسا ہی ہو گا کیونکہ ملک میں حکومتیں بن رہی ہیں آمد رمضان کے موقع پر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہو گا کہ وہ فوری طور پر زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے کوئی کام کر سکیں۔ ویسے تو گذشتہ چند برسوں میں منتخب حکومتیں بھی اس حوالے سے مناسب منصوبہ بندی اور حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہیں۔ ویسے تو ہر حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کھانے پینے کی اشیاء کا عام آدمی کے لیے سال کے بارہ مہینے کم قیمتوں پر فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اٹھارہ ارب ڈالر جرمانے سے بچنے کے لیے ایران کے گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے پر لگ بھگ پینتالیس ارب ڈالر لاگت آئے گی اور ایل این جی کے مطابق سات سو پچاس ملین کیوبک فٹ گیس سستے داموں مل سکے گی۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کو سالانہ لگ بھگ پانچ ارب ڈالر یا اس سے زیادہ بچت ہو گی۔کابینہ توانائی کمیٹی نے ایرانی بارڈر سے گوادر تک اکیاسی کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری دے دی۔ اس منصوبے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ایران پر امریکی پابندیاں ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے ایران کی طرف سے آذر بائیجان، عراق اور ترکیہ کو گیس کی خرید و فروخت کو بنیاد بنا کر استثنی کی بات چیت کرے گا۔ پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کا کام شروع کیا جائے گا اور گوادر سے ایران سرحد تک تعمیر ہو گی۔ نئی حکومت کے لیے اس منصوبے کی تکمیل بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ یہ منصوبہ براہ راست پاکستانی عوام کے لیے فائدہ مند ہے، اسے ہر حال پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے، مہنگی ایل این جی کی وجہ سے بھی زندگی مشکل ہوئی ہے۔ اگر نگراں حکومت اس حوالے سے بہتر حکمت عملی تیار کر کے آگے بڑھ سکتی ہے تو پھر ایک منتخب حکومت کو اس حوالے سے کسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ اگر ایران ترکیہ، عراق اور آذر بائیجان کے ساتھ گیس کی خرید و فروخت کر سکتا ہے تو پاکستان کو بھی اس حوالے سے مکمل آزادی ہونی چاہیے۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
ہم خوابوں کے بیوپاری تھے 
پر اس میں ہوا نقصان بڑا 
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی 
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا 
ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں 
اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا 
یاں بوند نہیں ہے ڈیوے میں 
وہ باج بیاج کی بات کرے 
ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں 
وہ ڈھور اناج کی بات کرے 
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں 
وہ آج ہی آج کی بات کرے 
جب دھرتی صحرا صحرا تھی 
ہم دریا دریا روئے تھے 
جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں 
اور سر سنگیت میں سوئے تھے 
تب ہم نے جیون کھیتی میں 
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے 
کچھ خواب سجل مسکانوں کے 
کچھ بول کبت دیوانوں کے 
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملے 
کچھ گیت شکستہ جانوں کے 
کچھ نیر وفا کی شمعوں کے 
کچھ پر پاگل پروانوں کے 
پر اپنی گھائل آنکھوں سے 
خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا 
ماٹی میں ماس کی کھاد بھری 
اور نس نس کو زخمایا تھا 
اور بھول گئے پچھلی رت میں 
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا 
ہر بار گگن نے وہم دیا 
اب کے برکھا جب آئے گی 
ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی 
اور ہر کونپل پھل لائے گی 
سر پر چھایا چھتری ہوگی 
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی 
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا 
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے 
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر 
کچھ خاکستر سے کجرے تھے 
اور دور افق کے ساگر میں 
کچھ ڈولتے ڈوبتے بجرے تھے 
اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری 
اور جسم پہ جوگ کا چولا ہے 
سب سنگی ساتھی بھید بھرے 
کوئی ماسہ ہے کوئی تولا ہے 
اس تاک میں یہ اس گھات میں وہ 
ہر اور ٹھگوں کا ٹولا ہے 
اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در 
اب پاس رہا ہے کیا بابا 
بس تن کی گٹھری باقی ہے 
جا یہ بھی تو لے جا بابا 
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں 
تو اپنا قرض چکا بابا

ای پیپر دی نیشن