ہندو انتہا پسندی اور سیکولر ملائیت کے مقاصد ایک ہیں

Jan 25, 2010

پروفیسر فتح محمد ملک
’عیبِ مے جملہ بگفتی ، ہنرش نیز بگو‘کے مصداق جناب جسونت سنگھ کی کتاب کی سب سے بڑی خوبی کی تحسین بھی ہم پر واجب ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں پنڈت جواہر لال نہرو کے ذہن و ذوق کا حقیقت افروز تنقیدی تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے اور برصغیر کی سیاست پر پنڈت جی کے سیکولر طرزِ فکر و عمل کے منفی اثرات کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ اِس باب میںاُن کا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر پنڈت نہرو واقعتا سیکولر تھے تو پھر انہوں نے مذہب یعنی جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کیوں قبول کر لی تھی؟ جناب جسونت سنگھ نے اِس سوال کے جواب میں قائداعظم کی دیو قامت شخصیت کے سامنے پنڈت نہرو کے مریضانہ احساسِ کمتری کا بیّن ثبوت خود پنڈت نہرو کی احمدنگر جیل میں 1947ء میں قلمبند کی گئی ڈائری میں نمایاں ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قائداعظم کا خیال آتے ہی پنڈت جی کے جسم و جاں پر غیض و غضب کی کپکپاہٹ طاری ہو جاتی ہے اور وہ خود میں قائداعظم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت نہ پا کر پکار اُٹھتے ہیںکہ قائداعظم سے نجات کی خاطر اگر پاکستان کا قیام منظور کرنا پڑے تو بھی کر لینا چاہیے:
\\\"Instinctively I think it is better to (give) Pakistan or almost anything if only to keep Jinnah far away and not allow his muddled and arrogant head from interfering continually in India\\\'s progress.\\\" (p.505)
جناب جسونت سنگھ نے پنڈت نہرو کی اِس قابلِ رحم نفسیاتی بیماری کا تجزیہ کرتے وقت دیگر سیاسی مؤرخین کے اخذ کردہ نتائج سے بھی استفادہ کیا ہے۔ انہی سیاسی مؤرخین میں سے ایک Leonard Moseley ہیں جن کی پنڈت نہرو کے ساتھ ایک گفتگو کا حوالہ دیا گیا ہے۔اِس گفتگو کے دوران پنڈت جی اعتراف کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تقسیم ہند عارضی ثابت ہو گی اور بالآخر پاکستان کا بھارت کی گود میں آ گرنا لازم ہے:
\\\"We expected that Partition would be temporary, that Pakistan was bound to come back to us.\\\" (The Last Days of British Raj, p.285)
پنڈت نہرو کا یہ اعتراف بہت معنی خیز ہے کہ انہوں نے قیامِ پاکستان کوایک ابدی حقیقت کی بجائے فقط ایک عارضی اور فانی حقیقت سمجھ کر قبول کیا تھا ۔ کیا عجب قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستان سے دشمنی کا چلن، کشمیر پر بھارت کی فوج کشی اور پنجاب میں فسادات پاکستان کو جنم لیتے ہی موت کی نیند سُلا دینے کی حکمتِ عملی کا شاخسانہ ہو۔جناب جسونت سنگھ پنڈت نہرو کو پاکستان کی اِن ابتدائی مشکلات و مصائب کا ذمہ دارٹھہراتے ہیں:
\\\"The Congress, led by Nehru, was the political party that agreed to partition; then later as the occupant of the seat of authority, and as the head of government of the day, he was clearly guilty of failing totally in his duty of preventing the bloodshed of million of innocents. The fratricidal killing was of such unprecedented dimensions that the blood that then soaked our land continues till today to entrap Hindu-Muslim relations into congealed animosities.\\\" (p.503)
فسادات کی ذمہ داری کا یہ تعین اِس اعتبار سے حقائق پر مبنی ہے کہ اگست سن انیس سو سینتالیس میں پنڈت نہرو وزیراعظم ، سردار پٹیل وزیرِداخلہ ،سردار بلدیو سنگھ وزیرِدفاع اور لارڈ مائونٹ بیٹن گورنرجنرل تھے۔امن و امان کے قیام اور جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری انہی لوگوں پر عائد ہوتی تھی۔پنڈت نہرو اِن کے سربراہ تھے۔اِن لوگوں کو سخت مجبوری کے عالم میں قیامِ پاکستان کا مطالبہ منظور کرتے ہی بنی تھی۔آخری وار کے طور پر انہوں نے پاکستان کو ’’کٹاپھٹا اور دیمک خوردہ‘‘پاکستان بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔کیا اِن نامبارک مساعی کے پسِ پردہ یہ مقصد کارفرما تھا کہ پاکستان فسادات کے خون خرابے میں ڈوب کر رہ جائے اور یوں پنڈت نہرو کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہو کہ پاکستان کی ہندوستان میں از سرِنوشمولیت ناگزیر ہے؟کیا مختلف اور متنوع حربوں سے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کو ختم کر دینے کی یہ منصوبہ بندی مسلمانوں کے دلوں سے تصورِ پاکستان کو محو کر دینے کی حکمتِ عملی تھی؟اِن سوالات پر غور کریں تو کُھلتا ہے کہ جناب جسونت سنگھ اور پنڈت جواہر لال نہرو …ہندومہاسبھا اور انڈین نیشنل کانگرس …کے مقاصد ایک ہیں، فقط حکمتِ عملی جداگانہ ہے۔
پنڈت نہرو قراردادِ پاکستان کے چار سال بعد اپنی کتاب Discovery of India میں ایک ایسے ہندوستان کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں جس کی مغربی سرحدہندوکش کا پہاڑ ہے۔جسونت سنگھ بھی اپنی زیرِ نظر کتاب میں برما سے افغانستان تک پھیلی ہوئی وسیع و عریض سلطنت کے رومانی خواب کے منتشر ہو کر رہ جانے پر سراپا وقفِ الم ہیں۔وہ ہمیں قیامِ پاکستان پر اپنے دل میں بچھی ہوئی صفِ ماتم کی جانب یوں متوجہ کرتے ہیں:
\\\"The Indian subcontinent, from Burma to Afghanistan had almost always been a natural \\\'common market\\\' for the movement of goods and people. Partition was not just a geographical and emotional vivisection of this subcontinent, India in consequence clearly lost the most; its land and its people; plus its political, cultural and social unity was torn asunder, but then that was not of concern to the Quaid-e-Azam. (p.522)
پنڈت نہرو اور جسونت سنگھ ہر دو کی متذکرہ بالا کتابوں کے اوراق پلٹتے وقت اُس قدیم ہندوستان کی ’’ہولناک چیرپھاڑ ‘‘ پر نالہ و ماتم کی دبی دبی سسکیاں سُنائی دیتی ہیں جو برما سے افغانستان تک ایک وسیع و عریض منڈی کی مثال پیش کر رہا تھا۔ مگر یہ تو قرونِ وسطیٰ کا قصّہ ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پنڈت نہرو اور جسونت سنگھ کی ذہنی ساخت پرداخت قرونِ وسطیٰ کی شہنشاہیت کی فضائوں میں ہوئی ہواور وہ اشوک سے لے کر اورنگزیب تک اور پھر اورنگزیب کے نااہل جانشینوں سے لے کر لارڈ مائونٹ بیٹن تک کی شہنشاہیت کو جمہوری لباس میں قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں۔اگر پنڈت نہرو اور جسونت سنگھ اپنے دماغ سے شہنشاہیت کے خنّاس کو نکال کر اپنے ہمسایہ ممالک کی آزادی، خود مختاری اور خود ارادیت کا احترام کرنا سیکھ لیتے تو آج وہ اس طرح کی نالہ زنی سے نجات پا سکتے تھے۔ یورپ میں ایمپائر کے ٹوٹ جانے کے نتیجے میں جتنے ممالک آزاد ہوئے تھے وہ اوّل اوّل اپنے ہمسایہ ممالک سے جنگ آزما رہے ۔ جرمنی اور فرانس میں تو چھوٹے موٹے سرحدی تنازعات پر برسوں جنگیں جاری رہیں۔پھر وہ وقت آ پہنچا جب یہ تنازعات ختم کر کے یورپ کی تمام قومیں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور رفتہ رفتہ یورپین یونین کی سی کامن مارکٹ قائم ہو گئی۔ برما سے افغانستان تک پھیلے ہوئے خطۂ ارض پر آباد مختلف آزاد اور خود مختار قومی ریاستوں کا وجود تسلیم کیے بغیر امن ، انصاف اور آزادی کی فضا کی پیدا ئش اور پرورش ناممکنات میں سے ہے۔ پنڈت نہرو اور جسونت سنگھ جداگانہ مسلمان قومیت کے نظریہ کو ماننے سے اس لیے انکاری ہیں کہ یہ نظریہ صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ برعظیم ہند کی متعدد دوسری قوموں کی نظریاتی اساس بھی بن سکتا ہے:
\\\"Acceptance of partition on grounds of faith, particularly when that is demanded on grounds of \\\'Muslims (being) a separate nation\\\', endlessly will continue to give birth to more destructive minoritism, being politically contagious for India, tragically the birth of Pakistan does not end this debate.\\\" (p.479)
جناب جسونت سنگھ نے درج بالاسطورمیں جداگانہ مسلمان قومیت کے نظریے کو ایک سیاسی متعدی مرض سے تعبیر کیا ہے۔سیاسیات کے علم میں Politically contagious ایک نئی اصطلاح ہے۔ میں جداگانہ مسلمان قومیت کے تصور کو انسانی آزادی کا منشور سمجھتا ہوں اور اِس کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کو سلطانیٔ جمہور کی بارش کا پہلا قطرہ قرار دیتا ہوں۔پنڈت نہرو ہوں یا جسونت سنگھ یا بھارت کی دیگر سیاسی قوتیں، ان میں سے کسی نے بھی قیامِ پاکستان کو دِل سے تسلیم نہیں کیا۔یہ خبث ِباطن ہی پاکستان اور بھارت کے مابین مسلسل جنگ و جدل کا باعث چلا آ رہا ہے۔جناب جسونت سنگھ نے قائداعظم محمد علی جناح کی نیّت کو اپنی نیّت کے آئینے میں یوں دیکھا ہے:
\\\"Muhammad Ali Jinnah was, to my mind, fundamentally in error proposing \\\'Muslims as a separate nation\\\', which is why he was so profoundly wrong when he simultaneously spoke of \\\'lasting peace, amity and accord with India after the emergence of Pakistan\\\'; that simply could not be.\\\" (p.498)
درج بالا سطور میں ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پنڈت نہرو کی سیکولرمُلّائیت اور جسونت سنگھ کی ہندو احیائیت ، ہر دو اُس وقت تک طبلِ جنگ پر چوٹ لگاتی رہے گی جس وقت تک پاکستان جداگانہ مسلمان قومیت کی نظریاتی اساس پر قائم ہے۔ بھارت سے دوستی کی فقط ایک ہی شرط ہے کہ پاکستان اپنی نظریاتی بنیاد کو منہدم کر دے۔ پاکستان کی محکوم اشرافیہ تو شاید اس شرط کو قبول کر لینے پر آمادہ ہے مگر آزاد پاکستان کے غیور عوام کے نزدیک :
ایں خیال است و محال است و جنوں!
مزیدخبریں