این آر او پر فیصلے کے بعد اس کی زد میں آنے والوں کے اشتعال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زبان سے فیصلے پر عمل کی باتیں اور عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ وزیراعظم نے مختصر فیصلے کے بعد کہا تھا کہ رحمن ملک تو لوگوں کو گرفتار کرتا ہے اسے کون گرفتار کرے گا۔ صدر کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت عدالتوں میں حاضری سے استثنیٰ حاصل ہے اس پر ماہرین اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں کچھ کے نزدیک صدر کو اپنے دور صدارت کے معاملات میں عدالتی استثنیٰ حاصل ہے۔ این آر او جن مقدمات اور کیسوں پر لاگو ہوا تھا وہ ان کے دور صدارت سے قبل کے ہیں بہرحال صدر اور آرٹیکل 248 کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ صدر کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں وہ تو خود کو صفائی اور پارسائی کےلئے پیش کریں۔ وہ بھی اپنی اپنی جگہ خود کو صدر سمجھے بیٹھے ہیں۔ آزاد عدلیہ کے سفر کا ابھی آغاز ہوا ہے کہ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کی جا رہی ہیں۔ آصف علی زرداری فرماتے ہیں ”جب بھٹو کو آمر شکست نہ دے سکے تو انہیں قتل کیا گیا۔ قلم کے دبا¶ پر انہیں قتل کیا گیا۔ آج ہمارے خلاف بھی ایسی سازشیں کی جا رہی ہیں“۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا فیصلہ متنازعہ چلا آرہا ہے ان کی سزائے موت کو جوڈیشل مرڈر بھی کہا جاتا ہے۔ ان کو جن حالات میں سزائے موقت سے ہمکنار کیا گیا ان کا موجودہ حالات سے کیسے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کون سے این آر او سے استفادہ کیا اور اربوں کی جائیدادیں بنائی تھیں۔ زرداری صاحب پر اپنے اور جمہوریت کے خلاف سازشوں کا واویلا کرتے ہیں لیکن قوم کو یہ بتانے کو تیار نہیں کہ سازشیں کون کر رہا ہے؟ ان کے مدمقابل سوائے مسلم لیگ ن کوئی نہیں ہے میاں نواز شریف خود کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوا یا پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو وہ اس کے سامنے ڈھال اور رکاوٹ بن جائیں گے۔ زرداری صاحب فوج پر خود اعتماد کا اظہارکر چکے ہیں پھر بھی ان کو سازشیں نظر آرہی ہیں۔ تو وہ کہاں سے ہو رہی ہیں۔ ایک عدلیہ باقی ہے موجودہ حالات میں جب سپریم کورٹ نے این او آر پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے ان کا اشارہ اس طرف ہو سکتا ہے لیکن عدلیہ کو کسی کے خلاف سازش کی کیا ضرورت ہے۔ وہ انصاف پر مبنی فیصلے کر رہی ہے۔ بغیر کسی لالچ اور دبا¶ کے.... ڈوگر کورٹ سے فیصلے لینے کے عادی لوگوں کو میرٹ پر فیصلوں سے گھبراہٹ قدرتی امر ہے۔ سازشیں تو حکومت کی طرف سے عدلیہ کے خلاف ہو رہی ہیں۔ ججوں کے مابین اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس سپریم ججوں کو سپریم کورٹ لے جانا چاہتے ہیں ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نہ صرف ان کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے۔ چینی کی قیمت 40 روپے مقرر کی گئی تو متعلقہ وفاقی وزیر نے کہا سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر خود عمل کرائے ذرا سختی ہوئی تو کہیں چینی 40 روپے کلو تھی تو کہیں 100 روپے تک جا پہنچی اور کہیں بالکل نایاب ہو گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر تیل کی قیمتوں میں کمی تو چوبیس گھنٹے بعد کسی دوسرے ٹیکس کے نام پر پھر سے اضافہ کر دیا۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں اپنے مفادات پر زد آتی دیکھ کر دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جہاں ججوں کو اپنے خلاف فیصلے دینے کی پاداش میں قتل کیا جا چکا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری سے صرف آج کے حکمران ہی نہیں کئی دوسرے حلقے اور افراد بھی خفا ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر لاہور سے واپسی پر ان کے سکواڈ میں شامل گاڑیوں کو حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ ان کے خلاف سازش تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے اسے قاتلانہ حملہ قرار دیا۔ ججوں کو اپنی خفاظت کا خصوصی طور پر خیال رکھنا چاہئے۔ آج کی عدلیہ تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے اور قوم کی امیدوں پر پورا اتر رہی ہے۔ قوم اس کے ساتھ ہے۔ یہ بعض لوگوں کی بھول ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں عدالتوں کو بے بس کر سکتے ہیں اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں رخنے ڈال سکتے ہیں۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد کےلئے حکومتی مشینری اگر تعاون نہیں کرتی تو فوج موجود ہے۔ عدلیہ اس سے مدد حاصل کر سکتی ہے۔ سید سجاد علی شاہ نے جن حالات میں فوج سے تعاون مانگا تھا وہ حالات کچھ اور تھے آج کچھ اور ہیں۔ حکومت کو یہ نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہئے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے عدلیہ کو فوج سے تعاون حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ عدلیہ کے احکامات پر من و عن عملدرآمد سے حکومت کی نیک نامی ہو گی عہدے اداروں سے مقدم نہیں اگر کچھ عہدیداروں کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت پیپلز پارٹی کی ہی رہے گی۔ اگر سازشیں جاری رہیں اداروں کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ خود طالع آزما¶ں کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا اور یقیناً نقصان ان کو ہی ہو گا جو تخت پر براجمان ہیں۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں اپنے مفادات پر زد آتی دیکھ کر دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جہاں ججوں کو اپنے خلاف فیصلے دینے کی پاداش میں قتل کیا جا چکا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری سے صرف آج کے حکمران ہی نہیں کئی دوسرے حلقے اور افراد بھی خفا ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر لاہور سے واپسی پر ان کے سکواڈ میں شامل گاڑیوں کو حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ ان کے خلاف سازش تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے اسے قاتلانہ حملہ قرار دیا۔ ججوں کو اپنی خفاظت کا خصوصی طور پر خیال رکھنا چاہئے۔ آج کی عدلیہ تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے اور قوم کی امیدوں پر پورا اتر رہی ہے۔ قوم اس کے ساتھ ہے۔ یہ بعض لوگوں کی بھول ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں عدالتوں کو بے بس کر سکتے ہیں اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں رخنے ڈال سکتے ہیں۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد کےلئے حکومتی مشینری اگر تعاون نہیں کرتی تو فوج موجود ہے۔ عدلیہ اس سے مدد حاصل کر سکتی ہے۔ سید سجاد علی شاہ نے جن حالات میں فوج سے تعاون مانگا تھا وہ حالات کچھ اور تھے آج کچھ اور ہیں۔ حکومت کو یہ نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہئے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے عدلیہ کو فوج سے تعاون حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ عدلیہ کے احکامات پر من و عن عملدرآمد سے حکومت کی نیک نامی ہو گی عہدے اداروں سے مقدم نہیں اگر کچھ عہدیداروں کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت پیپلز پارٹی کی ہی رہے گی۔ اگر سازشیں جاری رہیں اداروں کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ خود طالع آزما¶ں کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا اور یقیناً نقصان ان کو ہی ہو گا جو تخت پر براجمان ہیں۔