ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں اپنے مفادات پر زد آتی دیکھ کر دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جہاں ججوں کو اپنے خلاف فیصلے دینے کی پاداش میں قتل کیا جا چکا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری سے صرف آج کے حکمران ہی نہیں کئی دوسرے حلقے اور افراد بھی خفا ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر لاہور سے واپسی پر ان کے سکواڈ میں شامل گاڑیوں کو حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ ان کے خلاف سازش تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے اسے قاتلانہ حملہ قرار دیا۔ ججوں کو اپنی خفاظت کا خصوصی طور پر خیال رکھنا چاہئے۔ آج کی عدلیہ تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے اور قوم کی امیدوں پر پورا اتر رہی ہے۔ قوم اس کے ساتھ ہے۔ یہ بعض لوگوں کی بھول ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں عدالتوں کو بے بس کر سکتے ہیں اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں رخنے ڈال سکتے ہیں۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد کےلئے حکومتی مشینری اگر تعاون نہیں کرتی تو فوج موجود ہے۔ عدلیہ اس سے مدد حاصل کر سکتی ہے۔ سید سجاد علی شاہ نے جن حالات میں فوج سے تعاون مانگا تھا وہ حالات کچھ اور تھے آج کچھ اور ہیں۔ حکومت کو یہ نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہئے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے عدلیہ کو فوج سے تعاون حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ عدلیہ کے احکامات پر من و عن عملدرآمد سے حکومت کی نیک نامی ہو گی عہدے اداروں سے مقدم نہیں اگر کچھ عہدیداروں کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت پیپلز پارٹی کی ہی رہے گی۔ اگر سازشیں جاری رہیں اداروں کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ خود طالع آزما¶ں کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا اور یقیناً نقصان ان کو ہی ہو گا جو تخت پر براجمان ہیں۔
آزاد اور پُر عزم عدلیہ
Jan 25, 2010
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں اپنے مفادات پر زد آتی دیکھ کر دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جہاں ججوں کو اپنے خلاف فیصلے دینے کی پاداش میں قتل کیا جا چکا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری سے صرف آج کے حکمران ہی نہیں کئی دوسرے حلقے اور افراد بھی خفا ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر لاہور سے واپسی پر ان کے سکواڈ میں شامل گاڑیوں کو حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ ان کے خلاف سازش تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے اسے قاتلانہ حملہ قرار دیا۔ ججوں کو اپنی خفاظت کا خصوصی طور پر خیال رکھنا چاہئے۔ آج کی عدلیہ تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے اور قوم کی امیدوں پر پورا اتر رہی ہے۔ قوم اس کے ساتھ ہے۔ یہ بعض لوگوں کی بھول ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں عدالتوں کو بے بس کر سکتے ہیں اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں رخنے ڈال سکتے ہیں۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد کےلئے حکومتی مشینری اگر تعاون نہیں کرتی تو فوج موجود ہے۔ عدلیہ اس سے مدد حاصل کر سکتی ہے۔ سید سجاد علی شاہ نے جن حالات میں فوج سے تعاون مانگا تھا وہ حالات کچھ اور تھے آج کچھ اور ہیں۔ حکومت کو یہ نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہئے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے عدلیہ کو فوج سے تعاون حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ عدلیہ کے احکامات پر من و عن عملدرآمد سے حکومت کی نیک نامی ہو گی عہدے اداروں سے مقدم نہیں اگر کچھ عہدیداروں کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت پیپلز پارٹی کی ہی رہے گی۔ اگر سازشیں جاری رہیں اداروں کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ خود طالع آزما¶ں کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا اور یقیناً نقصان ان کو ہی ہو گا جو تخت پر براجمان ہیں۔