’مرنڈا! ماما مرنڈا‘ ہم چلائے تو یاروں کو احساس ہُوا کہ ان کے بولنے کا وقت آ گیا ہے ’یار! تم میرے لئے ٹیم لے آﺅ‘ میرے لئے پیپسی‘ میرے لئے سپرائیٹ!‘ اور پھر محفل پر چھائی ہوئی خاموشی دَم دے گئی! باتیں شروع ہوئیں تو راجہ ریاض احمد اور رانا ثنااللہ کے گرد گھومنا شروع ہو گیئں!
راجہ ریاض اور پنجاب کے سینئر وزیر کی حیثیت سے جناب آصف علی زرداری کے استقبال کے لئے پہنچے تو جناب آصف علی زرداری نے انہیں محض ’جیالا‘ گردان کر کوئی خاص توجہ نہ دی تو ’برقیاتی ذرائع ابلاغ‘ میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ پنجاب حکومت کا کوئی نمائندہ ائر پورٹ پر موجود نہ تھا! حالانکہ وزیر اعلیٰ کی غیر موجودگی میں سینئر وزیر ہی ان کے قائم ہُوا کرتے ہیں! لیکن مولانا غلام مصطفی کھر گورنر ہو کر بھی بار بار صرف جیالے ہونے کا اعلان و اعتراف کرتے نہ تھکتے تھے! حالانکہ ان کے اپنے الفاظ کے مطابق جناب ذوالفقار علی بھٹو انہیں ’گورنر بن گورنر!‘ کہہ کر چُپ کراتے رہے مگر وہ آج بھی جتنا فخر ان کے شاگرد ہونے پر کرتے ہیں‘ اتنا فخر وہ کسی اور بات پر نہیں کر پاتے!
کتنی دل چسپ بات ہے کہ اب باقی ماندہ جیالے بھی اپنے ’وزیر‘ ہونے سے زیادہ ’زرداری کی وفاداری‘ پر فخر کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور یکایک اُن سب کے پیٹ میں عوام کی بدحالی‘ مہنگائی کے انتہائی سطح پر پہنچ جانے‘ گیس‘ بجلی اور آٹے کے بحران‘ کا مروڑ اٹھ کھڑا ہوا ہے! وہ ’عدلیہ‘ میں ’مقدمات کا سامنا کرنے‘ اور ’عوام کی بحالی‘ کا عہد ایک ہی سانس میں کرتے دکھائی پڑ رہے ہیں! سچ ہے کہ ’انتخاب کا زمانہ‘ حکمران طبقات کی آنکھیں کھول دیتا ہے اور ذہن نئے جھوٹ گھڑنے کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے!
’استاد بوتل‘ بھی ’بوتلوں کے ناچ اُٹھنے تک‘ شراب میں ’نشہ‘ نہ ہونے کی شکایتیں کرتے پھر رہے ہیں جبکہ لاہور پولیس لوگوں کی جیبوں سے ’گورنر ہا¶س‘ سے ملنے والے ’سگریٹوں کے پیکٹ‘ تک ضبط کرتی پھر رہی ہے! گویا ’جیالوں کے کٹھ‘ پر ’انتقامی کارروائی‘ کا ’بل ڈوزر‘ پھیرتی پھر رہی ہے!
ہم نے ایک پلازہ کے مالک سے پوچھا ’آپ کے دو فلور گرائے جا رہے ہیں! آپ جرمانہ کیوں نہیں بھر دیتے؟‘ تو انہوں نے فرمایا ’چار کروڑ روپے کا جرمانہ بھرنا بہتر ہے یا دو کروڑ روپے کا نقصان برداشت کر لینا!‘ ۔ ’لیکن ۔‘ ہم عزت‘ بے عزتی‘ کے حوالے سے کچھ کہنے والے تھے کہ انہوں نے بات کاٹ کر فرمایا ’یہ دونوں فلور بک چکے تھے اور میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ ان کی تعمیر غیر قانونی ہوئی تو اِن کے مالکان نے کہا تھا ! تم پیسے لو اور ہمارے لئے دفتر بنا دو! اُنہیں گرایا گیا تو ہم تم سے ایک پیسہ بھی نہیں مانگیں گے!‘’ ہم وہاں سے اٹھے اور گھر آ گئے! یاروں نے جتنا فائدہ اٹھانا تھا‘ اٹھا چکے! اب جو کرے کرتار!
دنیا میں ’پلازہ‘ تعمیر کرنا اتنا آسان کام نہیں ہوتا‘ آگ‘ حادثے اور زلزلے کے امکان سامنے رکھ کر تیار کردہ ڈیزائین! وسیع ہنگامی انخلائی راستوں سے لے کر بجلی فیل ہو جانے کی صورت میں ہنگامی اقدامات تک یقینی بنا لیے جانے کے بعد ہی ان ڈیزائنوں کو منظور کیا جاتا ہے اور ان کے تعمیراتی معیار کی نگرانی کی جاتی ہے! جبکہ ہم لوگ پیپسی اور ویلنٹائین سپیشل کا فرق بھول کر پھر مشروف کے لئے ’بوتل‘ کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں! ’بے ڈھنگی عمارات‘ کے لئے ’پلازہ‘ کا لفظ بول دیتے ہیں اور یہ ’گٹھ جوڑ‘ کے لئے ’اتحاد‘ کا لفظ لکھتے اور بڑھتے چلے جاتے ہیں! خدا ہمارے حال پر رحم فرمائے! آمین!
کسی نے سچ کہا ہے! نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل! ہمارے ناچنے سے کیا فرق پڑتا ہے! گورنر ہا¶س میں مور ناچا! کس نے دیکھا؟