لاہور (سلمان غنی) بلوچستان کے سابق گورنر‘ ممتاز عسکری ماہر جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے ”امن کی آشا“ نامی مہم کو ایک طے شدہ ایجنڈا کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سرحدوں کے حوالہ سے سٹیٹس کو جاری رکھنے اور بھارت کی بنی الاقوامی حیثیت قائم کرنے کا نسخہ ہے لیکن جب تک علاقائی صورتحال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور کشمیر سے آنیوالی پانی جیسے سلگتے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا‘ یہ امن کی آشا خواہش ہی بنی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو ہندو قیادت آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کرتی ہو اور جو ہندوستانی حکومتیں پاکستان کو اندرونی طور پر عدم استحکام اور انتشار سے دوچار کرنے کیلئے سرگرم ہوں۔ ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ علاقائی امن کیلئے کوشاں ہوں گے۔ خود کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہوگا۔ وہ گزشتہ روز نوائے وقت سے خصوصی بات چیت کررہے تھے۔ جنرل قادر بلوچ نے کہا کہ نئی پیدا شدہ صورتحال میں امن کی آشا مہم دراصل ایک بین الاقوایم ایجنڈا کی کڑی ہے اور ہندوستان جان بوجھ کر ایسی مہمان کی سرپرستی کرکے کشمیر کے مسئلہ سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک ایسا رستا ہوا زخم ہے کہ جب تک یہ مندمل نہیں ہوگا اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا اختیار نہیں ملے گا۔ کوئی خواہ امن کی آشا کے نام پر خواہشات کے گھوڑے دوڑائے‘ زمینی حقائق تبدیلی نہیں ہوسکیں گے۔ جنرل قادر بلوچ نے مزید کہا کہ ایک طرف بھارتی آرمی چیف پاکستان کو 96 گھنٹے میں فتح کے ڈونگرے برساتا نظر آتا ہے۔ پاکستان پر جارحیت کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے تو دوسری جانب امن کی آشا کی باتیں کرکے دنیا کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن کی بنیاد صرف اور صرف تنازعات کے حل کے ذریعے ممکن ہے اور ایسا امن ہی کارگر ہوگا جس میں ہمسایہ ہمسائے کا خیال رکھے گا نہ کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام کی پالیسی اختیار کرکے اسے دھوکہ دینے کی کوشش ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی امن کی کنجی خود بھارت کے پاس ہے اور وہ اسے بروئے کار لا کر یہاں امن قائم کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی جبکہ بھارت نے مذاکرات میں بھی بدنیتی کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عام تاثر یہی ہے کہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے باتوں سے نہیں مانے گا۔ جنرل (ر) قادر بلوچ نے عدلیہ کے حوالہ سے ایک سوال پر کہا کہ آزاد عدلیہ خود سیاسی قوتوں کی جدوجہد کا مظہر ہے لہٰذا اس سے خوف کھانے کی بجائے اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے۔ عدالتی فیصلے جمہوریت کو غیرمستحکم نہیں کرتے۔ انہوں نے بلوچستان پر حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب خود وفاقی حکومت کے پیکیجز پر بلوچستان کے وزیراعلیٰ ہی مطمئن نہ ہوں تو اور کوئی عام بلوچ کیسے مطمئن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے احساس محرومی کے خاتمے کیلئے صرف پیکیجز ہی نہیں بلکہ ایک ایسے مسلسل عمل کی ضرورت ہے جس سے بلوچستان اور یہاں کے عوام ترقی کی منازل طے کرسکیں۔