آزاد عدلیہ کا امتحان اور غلامانہ سیاست

بہت تبصرے ہو چکے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر اور جیالوں، وزیر شذیروں، وزیراعظم اور صدر زرداری نے کوئی جوش و خروش نہیں دکھایا۔ مختصر فیصلے پر بہت شور مچا تھا۔ صدر زرداری نے اپنی تقریروں میں پنجابی اور مخدوم گیلانی نے سرائیکی زبان کے اشعار پڑھے۔ چیف جسٹس کے فیصلے میں اردو کا شعر لکھا تھا۔ یہ فیصلہ اردو میں لکھا جاتا تو کمال ہو جاتا
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہر حکمران نے کوئی نہ کوئی بھول کی ہے۔ یہ بھول بھلا دینے والی نہیں کہ حکام نے عوام کو مسائل، مشکلات اور عذابوں کی بھول بھلیوں میں الجھا دیا ہے۔ جسٹس سردار رضا نے فیصلے سے اتفاق کیا ہے مگر ایک اضافی نوٹ ساتھ شامل کیا ہے ”اس فیصلے میں اس سلطان کا کوئی ذکر نہیں ہے جس نے این آر او نافذ کیا اور اس سے پہلے اپنی پالیسیوں سے عدلیہ اور پوری قوم کو برباد کیا اور بدنام کیا۔ این آر او صدر زرداری کو پھنسانے کیلئے نافذ کیا گیا۔ وہ اس کے بغیر ایوان صدر میں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس کے بعد ہی بے نظیر بھٹو وطن آئیں۔ نواز شریف بھی اسی راستے سے پاکستان آئے۔ وطن سے صحیح سلامت جانے کیلئے بھی راستہ یہی تھا۔ یہ راستہ آنے اور جانے کے لئے وقت کے مطابق استعمال ہوتا ہے۔ ہر حکمران کے لئے کسی نہ کسی طرح این آر او کا سہارا لیا گیا ہے، تحریری اور غیر تحریری۔ دس سال کے لئے معاہدہ نہ تھا تو نواز شریف الیکشن لڑنے سے اتنا گریزاں کیوں ہیں۔ اقتدار میں آتے ہوئے ہمارے لالچی حکمران بھول جاتے ہیں کہ انہیں جانا بھی اسی راستے سے ہے۔ یہ بھی بھول یعنی غلطی ہے بلکہ غلط فہمی ہے
ترے جیسے تو آتے رہتے ہیں
آتے رہتے ہیں جاتے رہتے ہیں
پھر میں بھی غیر ادبی بحث میں پڑ گیا۔ فیصلے میں چیف جسٹس نے مولانا روم کو یاد کیا۔ فارسی کی ایک ضرب المثل بے مثال ہے ”آں راکہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک“ (جس کا حساب صاف ہے اسے محاسبے کا کیا ڈر)۔ ہمارا ہر حکمران اکاﺅنٹیبیلٹی سے ڈرتا کیوں ہے۔ ہر حکمران نے اپنے مطلب کی نیب بنائی ہے۔ نواز شریف کے پاس سیف الرحمن تھا تو صدر زرداری کے پاس رحمن ملک ہے مگر یہ لوگ اللہ کو رحمن نہیں سمجھتے۔ صدر زرداری اور اس کے حواری کہتے ہیں کہ سارے مقدمات جھوٹے ہیں تو پھر یہ ایک کرپٹ اور ظالم آمر مطلق سے ختم کیوں کروائے گئے۔ ماورائے عدالت ظلم ناجائز ہے تو ماورائے عدالت مہربانی بھی ناجائز ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ سب کا حساب ہو گا یہ بھی غلط بات تو نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں جو بھی اقتدار میں رہا، وفاق میں یا صوبے میں اور کسی کے پاس جو بھی اختیار رہا، اس نے ظلم کیا اور کرپشن کی۔ کرپشن ظلم سے بھی بڑا ظلم ہے۔ جو بھی حکومت میں تھا اور ہے اور جس کے پاس بھی ضرورت سے زیادہ دولت ہے اس سے حساب لیا جائے۔ دولت اور حکومت کا نشہ اور بدمستی ایک جیسی ہوتی ہے۔ دولت اور حکومت دونوں کو طاقت سمجھا جاتا ہے۔ جس کے پاس طاقت ہو وہ اس کا ناجائز استعمال ضرور کرتا ہے۔ طاقت کا جائز استعمال ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، دولتمندوں اور افسروں کو نہیں آتا۔ کاش ایسا ہوتا کہ حکمران اور سیاستدان مہرباں ہوں، دولت مند دردمند ہوں اور سول افسر سول سرونٹ ہوں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کہتے ہیں کہ وکلاءاپنی تحریک میں ثابت قدم رہے اور جیت گئے۔ اب ہماری باری ہے۔ عوام کو انصاف دلانے اور حکام کو کٹہرے میں لانے کیلئے ہم جج کوئی بھی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اللہ کرے آپ جیت جائیں مگر کسی کو ہرانے کی کوشش نہ کریں۔ ایسی جیت ہو کہ سب کی جیت ہو اور کسی کی شکست نہ ہو۔ شکست و ریخت تو بالکل نہ ہو۔ حکمرانوں، ججوں اور افسروں کے سامنے طاقتور اس وقت تک کمزور ہو جب تک وہ اس سے وہ سب کچھ نہ چھین لیں جو اس نے لوٹا ہے اور لوگوں کا حق مارا ہے۔ اسی طرح ان کے سامنے کمزور، طاقتور ہو جب تک اس کا حق نہ دلوا دیا جائے۔ میرے آقا و مولا رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ تم مظلوموں اور ظالموں دونوں کے ساتھ انصاف کرو۔ صحابہ نے پوچھا کہ ظالموں کے ساتھ انصاف کیسے ہو گا! حضورﷺ نے فرمایا کہ مظلوموں کو ظلم سے بچاﺅ اور ظالموں کو ظلم سے روک دو۔ یہ انصاف کی تکمیل ہے۔ مکمل انصاف میرے ملک کے مظلوموں کو تب ملے گا جب ظالموں سے ظلم کرنے کی توفیق چھین لی جائے گی۔ میرے خیال میں ہمارے ہاں حاکم اور ظالم ہم قافیہ ہی نہیں ہم راز بھی ہیں۔ ہمدم اور ہمرنگ۔ ہم پیالہ و ہم نوالہ۔ حاکموں کو سیدھا کردو، ظالموں سے خود بخود نجات مل جائے گی۔ الطاف حسین نے فیصلے کو تاریخی کہا ہے۔ اسے تاریخ ساز بنانا ابھی باقی ہے۔ الطاف حسین نے بہادر ججوں کو سلام پیش کیا جبکہ ایم کیو ایم کے کئی لوگ این آر او یافتہ ہیں۔ الطاف حسین خود ان میں سے ایک ہیں۔ میں بھی ان میں سے ایک ہوں جو چیف جسٹس کے لئے دو سال تک سڑکوں پر رہے۔ ان سے محبت کی اور کسی سیاستدان سے نہیں کی۔ چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔ اب اگر لوگ مایوس ہوئے تو وہ اپنے آپ سے نفرت کرنے لگیں گے اور اس یلغار میں جج بھی نہیں بچ سکیں گے۔ کچھ باتیں کچھ فیصلے ایسے ہوئے ہیں کہ وہ ناراض ہیں۔ چینی چالیس روپے کلو کی گئی تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ پنجاب میں بھی نہیں ہوا۔ اب پھر ان کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے سرگوشیاں ہونے لگی ہیں۔ سرگوشیاں کہیں شرگوشیاں نہ بن جائیں۔ انصاف کے سامنے سب برابر ہیں۔ عدلیہ کو ثابت کرنا ہو گا کہ صدر زرداری اور نواز شریف، مخدوم گیلانی اور شہباز شریف بلکہ سب حکام اور عوام برابر ہیں۔
ڈاکٹر بابر اعوان بڑے جذبے میں ہیں، مجھ سے فون پر انہوں نے کہا تھا کہ اداروں میں تصادم نہیں ہونے دوں گا۔ فوزیہ وہاب نے کہا کہ ہم مزاحمت نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر بابر اعوان لاہور ہائی کورٹ آئے تھے۔ تو وہ کیا کر کے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں کسی جج کا جانا اتنا اہم نہیں۔ اس معاملے میں چیف جسٹس اور صدر زرداری دونوں کو اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دینا چاہئے۔ کسی تیسرے کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کیلئے ایک دوسرے کے مدمقابل بن جانا اچھا نہیں ہے۔ ہر قیمت پر اپنے آپ کو بچانے والے نظام کو کیا بچائیںگے جو اپنے خمیر ضمیر میں غلام ہیں۔ وہ حکام بن جائیں گے تو انہیں آزاد عدلیہ کیونکر قابل قبول ہو گی۔ ضرورت اقتدار کا انتظار کرنے والوں کی نہیں، اقتدار کو اپنے سیاسی کردار میں ڈھالنے والوں کی ہے!

ای پیپر دی نیشن