تاریخ ایک تسلسل کا نام ہے جس میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے شامل ہیں۔ یہ تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں آج تک کوئی ایسا انسان نہیں آیا جو انسانیت کیلئے ایک مکمل نمونہ اور ایک مکمل اسوہ ہو۔ دنیا کی کسی بزرگ سے بزرگ ہستی کہ جسکے ماننے والے لاکھوں میں نہیں کرڑوں میں موجود ہیں تب بھی اسکے بارے میں، اسکی سیرت کے بارے میں اور اسکے کارناموں کے بارے میں دو چار کتابوں سے زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا مگر بخلاف اسکے رسول خدا کی سوانح عمری ہر زبان میں چھپی ہے، ہر ملک میں چھپی ہے۔ لطف یہ ہے کہ لکھنے والے صرف مسلمان نہیں عیسائی بھی ہیں، ہندو بھی ہیں اور سکھ بھی ہیں، دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں اس لئے آنجناب کی ذاتِ اقدس کے بارے میں دوچار یا دس بیس نہیں سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور دنیا کی لاتعداد زبانوں میں لکھی گئی ہیں۔ دنیا میں آنے اور یہاں سے جانیوالی اکثر شخصیات اپنے ماننے والوں کیلئے ایک دو شعبہ ہائے زندگی میں محدود قسم کی رہنمائی فراہم کرتی رہی ہیں مگر آنجناب علیہ السلام کی ذاتِ بابرکات ساری انسانیت کیلئے کامل اور اکمل نمونہ ہے۔ غرضیکہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو اپنے اپنے شعبے اور اپنے دائرے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطاہرہ سے سبق نہ لے سکتا ہو۔
آپ فی الحقیقت پیغمبرِ انقلاب تھے۔ آپ نے صرف 23 برس کے قلیل عرصے میں سنگدل انسانوں کو موم کر لیا اور پھر جیسے چاہا انہیں موڑ لیا۔ انہوں نے علاقوں کو ہی نہیں دلوں کو مسخر کر لیا۔ انسانوں کو اندر سے بدل دیا۔ پہلے انہیں نورِ ایمان سے منور کیا پھر انکی ذہن سازی کی اور پھر انہیں آدمی سے انسان بلکہ نہایت ہی اعلیٰ انسان بنایا اور پھر انکے ہاتھ میں اپنے علاقے ہی کی نہیں دنیا کی امامت، دنیا کی ساست اور دنیا کی قیادت تھما دی۔ آپ نے عرب کی حکومت کیا ہاتھ میں لی عرب کی کایا ہی پلٹ دی اور دیکھتے دیکھتے وہ انقلاب بپا ہوا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ عرب جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے آپ نے انہیں نورِ علم کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ آپ نے بے نخوت و تکبر کو عاجزی و بندگی میں بدل دیا۔ آپ نے ظلم و ستم کو عدل و انصاف میں بدل دیا ۔ آپ نے خود غرضی کو ہمدردی سے اور گستاخی و سرکشی کو ادب و اطاعت میں بدل دیا۔ آپ نے فاقہ کشی کو خوشحالی میں بدل دیا۔ جہاں عورت باعثِ عار تھی وہاں اسے باعثِ رحمت اور محبوب ترین ہستی بنا دیا اور جہاں کسی کی جان مال محفوظ نہ تھا وہاں اکیلی عورت مکة المکرمہ تک سونا اچھالتی ہوئی آتی تھی اور کوئی اس کی طرف بُری نیت سے نہیں دیکھتا تھا۔
یہ سب کیسے ہوا یہ سب کچھ نہایت ہی اچھی حکمرانی سے ممکن ہوا‘ جو ملت دنیا کی سب سے اچھی اور بہترین حکمرانی کی وارث ہو آج اسی قوم کا اندازِِ حکمرانی سب سے بدتر ہے۔ اس ملت میں کہیں ملکوکیت ہے تو کہیں بدترین قسم یک آمریت، کہیں خود غرضی، مفاد پرستی اور نفسانفسی کی حکومت ہے تو کہیں لوٹ مار اور رشوت ستانی کی حکمرانی ہے اور آج وہ ملک جو کلمہ¿ حق اور شانِ مصطفی بلند کرنے کیلئے حاصل کیا گیا تھا وہاں آج کے حکمران خلقِ خدا کیلئے امن و سلامتی کیلئے بجائے بدامنی اور دہشت گردی لے کر آئے ہیں۔ وہ لوگوں کیلئے خوشحالی کے بجائے بدحالی لے کر آئے ہیں۔ وہ کشادگی کے بجائے فاقہ کشی اور خودکشی لے کر آئے ہیں۔ وہ صداقت کے بجائے کذب بیانی اور دیانت کے بجائے بددیانتی لے کر آئے ہیں اس لئے آج ملتِ اسلامیہ کے اکثر ممالک اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بُری حکمرانی ہے۔ اگر حکمرانی اچھی ہو اور حکمران نیک نیت ہوں تو پھر دنیا کی ہر شے کا انتظام اور اہتمام ہو سکتا ہے۔
آپ نے ریاست مدینہ کے حکمران کی حیثیت سے سب سے پہلا کام مسلمانوں کے بعد اس علاقے کی سب سے بڑی قوت یہود کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس معاہدے میں گرد و نواح کے بہت سے قبائل کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اس معاہدے پر سردارانِ یہود کے علاوہ مدینے کی تمام آباد قوموں کے بھی دستخط ہوئے۔ میثاقِ مدینہ کا مقصد یہ تھا کہ قبائل کے درمیان رہنے والی خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گا، قریش مکہ معاہدے میں شامل قوموں کو مسلمان کیخلاف نہ اکسا سکیں گے۔ یہ معاہدے ایک ایسی پُرامن فضا کیلئے تھے کہ جس میں مسلمان امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ آپ نے بحیثیت حکمران جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ انصاف کا حصول تھا۔ آپ نے انصاف کا بول بالا کیا۔ ایک قاضی کیلئے ضروری ہے کہ وہ ذاتی اغراض سے بے نیاز ہو، وہ رشتوں اور تعلقات سے ماورا ہو، وہ مذہب و ملت اور قوم و نسل کے تعصبات سے پاک ہو۔ آپ ایک ایسے ہی جج تھے۔ آپ کی سیرت طیبہ میں عدل و انصاف کے سینکڑوں فیصلے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ مسلمان تو مسلمان، کافر بھی اور دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے حتیٰ کہ اسلام اور مسلمانوں سے پرخاش رکھنے والے یہود بھی آپ کو سب سے بڑا عادل اور منصف تسلیم کرتے تھے اور اپنے مقدمات آپ کے پاس لاتے تھے اور اس یقین کے ساتھ لاتے تھے کہ چاہے یہود کے مدمقابل دوسرا فریق مسلمان ہی کیوں نہ ہو حضور کا فیصلہ حق کا فیصلہ ہو گا۔
عدل و انصاف کے بارے میں آپ کسی اونچ نیچ کے قائل نہ تھے۔ ایک مرتبہ شرفائے قریش کی ایک عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی۔ مقدمہ پیش ہوا۔ تمام شرعی تقاضے پورے ہونے اور ثبوت بہم پہنچ جانے پر آپ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔ عمائدین قریش نے عالی نسبی کی بنا پر اس فیصلے کو ناپسند کیا اور حضور تک سفارش پہنچائی کہ یہ سزا معاف کر دی جائے۔ آپ نے سفارش پر خفگی کا اظہار کیا اور مسلمانوں کو مسجد میں اکٹھا کر کے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اس لئے ہلاک ہو گئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا اور اگر کوئی معمولی شخص مجرم ثابت ہوتا تو اسے کڑی سزا دی جاتی۔ آپ نے فرمایا خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹ دیا جاتا۔ آج ہمارے اسلامی جمہوریہ میں غریبوں کو سزا دی جاتی ہے اور امیروں کیلئے بچ نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کیا جاتا ہے۔ اگر وزیراعظم سمیت بااثر حکمران اور افسران چوری کے مرتکب ہوتے ہیں تو وہ سینہ زوری سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں اور جرم کے نشانات مٹانے اور گواہوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔ آپ کی حکمرانی میں کسی کو استثنا حاصل نہ تھا حتیٰ کہ اللہ کے رسول کہ جس کے جاں نثاروں کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں تھی اور جس کیلئے اسکے جاں نثار اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار تھے، اسے بھی استثنا حاصل نہیں تھا بلکہ اس احسن البشر نے اپنے لئے استثنا قبول ہی نہیں کیا۔
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم شاہ عرب ہی نہیں شاہ دوجہاں تھے اسکے باوجود آپ کی طبیعت میں اتنی سادگی تھی کہ جب آپ صحابہ کرامؓ کیساتھ تشریف فرما ہوتے تو کوئی پہچان نہ سکتا تھا کہ ان میں بادشاہ کون ہے اور دربان کون۔ آپ کے صحابہ کی محفل میں آپ کیلئے کوئی عالیشان یا ممتاز نشست نہ تھی، مسجد نبوی میں جہاں آپکے صحابہ بیٹھے ہوتے وہیں آپ بیٹھ جاتے۔ اسی جگہ مقدمات سُنتے، وہیں وعظ، نصیحت کرتے، وہیں جرنیل کی حیثیت سے فوجیں تیار کی جاتیں، وہیں مستقبل کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی پالیسی مرتب کی جاتی۔ مگر اس سادگی کے باوصف آپکی نورانی شخصیت کے رعب داب کا یہ عالم تھا کہ مخالفین جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے تو کانپ جاتے۔ آپکی اچھی بلکہ دنیا کی بہترین حکمرانی کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ آپ آج کی زبان میں اپنے عوام کا حصہ تھے۔ اپنے بلند ترین مرتبے کے باوجود وہ انکے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے، اُن کے ساتھ کھاتے پیتے، اُن کے دکھ درد میں شریک ہوتے۔
حکمرانی کا یہ اسلوب جناب مصطفی کی زندگی میں نقطہ¿ کمال پر پہنچا ہوا تھا۔ بعد میں خلفائے راشدین نے بھی اسی اسلوب کے مطابق بہت اچھی حکمرانی کی۔ آج سیکنڈے نیویا کے ممالک میں اسی اسلوبِ حکمرانی کی ادنیٰ سی جھلک نظر آتی ہے جبکہ اکثر اسلامی ممالک اس حکمرانی کے حقیقی تصور سے ناآشنا ہیں۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بُری حکمرانی۔ ہماری دعا ہے اور حکمرانوں سے ہماری استدعا ہے کہ وہ ریاست مدینہ کے حاکم کی سیرت پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کے عوام کیلئے خوشی اور خوشحالی کا سندیسہ لے آئیں۔