”شہید تفتیش کار“ ۔۔۔ !

کامران فیصل مرحوم کے والد اپنے بیٹے کو شہید قرار دیتے ہیں جبکہ قاتل، ظالم، فاسق اس پر خودکشی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان قاتلوں، ظالموں، فاسقوں پر خدا کا قہر نازل ہو۔ اللہ تعالیٰ غضبناک ہوتے ہوئے فرماتے ہیں ”اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے؟ یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے اس طریقے کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہے اور اس کی رضا کا راستہ اختیار نہ کیا۔ اسی بنا پر اس نے ان کے سب اعمال ضائع کر دئیے“ (سورة محمد) ۔ کامران فیصل کی طرح متعدد ایماندار اور بے گناہ افراد کو مختلف طریقوں سے قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ بلاشبہ کامران فیصل کے باپ کی طرح بے شمار مظلوم ماں باپ اپنا فیصلہ اللہ کی عدالت میں پیش کر چکے ہیں اور اللہ کی عدالت وہ کٹہرہ ہے جہاں قاتلوں، ظالموں، فاسقوں کی نہ ضمانت ہو گی اور نہ کوئی وکیل اورجج انہیں بچا سکے گا۔ ان کے جسم کے اعضا خود گواہی دیں گے اور ان کے ٹوٹے پھوٹے اعمال بھی برباد ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کے انصاف نے کراچی کے بیٹے شاہ زیب کے قاتلوںکو بھی ڈھونڈ نکالا اور کامران فیصل کے قاتلوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔ کامران فیصل کے والد تواتر سے ایک بات کہہ رہے ہیں کہ ان کے ایماندار اور نیک نمازی بیٹے پر خودکشی کے الزام سے خاندان اور مرحوم کو اذیت پہنچائی جا رہی ہے، ان کے بیٹے کو شہید کا مقام دیا جائے۔“ یہ مظلوم والدین اس معاشرے سے بیٹے کی شہادت کا مطالبہ کر رہے ہیں جو مبینہ مجرموں کو بھی شہید قرار دے دیتے ہیں؟ اس ملک کی سیاسی اور نام نہاد مذہبی پارٹیوں کے قاتل بھی مارے جائیں انہیں شہید قرار دے دیا جاتا ہے۔ کامران فیصل کامظلوم باپ اس معاشرے سے التجا کر رہا ہے جس کے عالم اور مفتی بھی قاتلوں اور ظالموں کو شہید کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں۔ پاکستان وہ اسلامی معاشرہ ہے جہاں اپنے ہی اپنوں کو مارتے ہیں اور خود ہی انہیں شہید بنا دیتے ہیں۔ شہید تو وہ ہوتا ہے جسے اللہ کی عدالت سے شہادت کا منصب عطا ہو جائے۔ کامران فیصل جس کے حق میں پورا میڈیا اور عوام کھڑے ہو گئے ہیں، اسے تو خود بخود شہادت کی سند مل گئی۔ زباں خلق کو نقارہ خدا سمجھو! کامران فیصل جیسا مضبوط اعصاب اور بہترین کردار کا مالک خود کشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ظالموں کے دباﺅکا شکار تھا تو اس کے پاس فرار کے کئی راستے تھے۔ کمسن بچوں کا باپ اور ضعیف باپ کا اکلوتا فرزند اتنے رشتوں کو تڑپتا ہوا چھوڑ کر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دنیا کی عدالت تو جو فیصلہ سنائے گی سو سنائے گی مگر اللہ کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔ اللہ تعالیٰ قاتلوں، ظالموں، فاسقوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”کاش! تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’لاﺅ‘ نکالو اپنی جان، آج تمہیںان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ کے بارے میں ظلم کیا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے۔ لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہو گئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا، جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا، وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو، اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے، تمہارے آپس کے سب رشتے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہو گئے جن کا تم زعم رکھتے تھے“ (انعام) ۔ اس دنیا میں سفارش ، رشوت، جھوٹے گواہان کا عارضی سہارا لینے والے اس گھڑی سے غافل ہیں جب یہ سب قاتل، ظالم ، فاسق ایک روز اس عدالت میں پیش کئے جائیں گے جہاں وہ تن تنہا کھڑے ہوں گے اور دنیا سے تمام تعلق ٹوٹ چکے ہونگے۔ چیف جسٹس کہتے ہیںکہ ایک طرف رینٹل پاور کیس کے بااثر ملزمان ہیں اور دوسری جانب ”غریب تفتیش کار“۔ وہ وقت قریب ہے جب ایک طرف قاتل، ظالم، فاسق کھڑے ہوں گے اور دوسری جانب ”شہید تفتیش کار“ ۔۔۔!

ای پیپر دی نیشن