اسلامی ممالک سے محبت، اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ رکھنے والا سعودیہ دیگر ممالک کیساتھ بھی احترام کا رشتہ رکھتا ہے۔ سعودیہ کو یہ احساس ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ملک یا گوشہ ایسا نہیں جہاں توحید و سُنت کے علمبردار موجود نہ ہوں۔ گویا غیر اسلامی ممالک میں بسنے والے شہری کیلئے بلکہ اقلیت بن کر بسنے والا اور اوپر سے توحید و سُنت کے دیپ جلانے والا زیادہ محترم اور مقدس ہے۔ سعودیہ معاشی اور معاشرتی دریچے کھولنے کیلئے ہمیشہ اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہناتا رہتا ہے۔ اسلامی دنیا کیساتھ ہنسنا اور اُس کے دکھ درد میں شریک رہنا علاوہ بریں ہر مسلمان کیلئے خیر کے پہلو رکھنے اور مدد کیلئے ہر لمحہ تیار رہنا سعودی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے۔ عظیم میزبان اور عظیم دوست سعودیہ اسلامک کلچر کی تمناﺅں کا امین بھی ہے۔
سعودی فرمانرواﺅں کی ایک خوبی ہے کہ وہ عربی اور عجمی ممالک کی تمیز کئے بغیر اور مشرق و مغرب کے تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلامی، رفاہی اور خارجی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ سعودی تخت و تاج پر جلوہ افروز کوئی بھی ہو تاہم خدمت کے جذبے کو کبھی زوال نہیں آیا۔ دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم دانشور اور تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ سلطنت سعودیہ وہ واحد مملکت ہے جس کی خدمت کا جال مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک منظم اور مستحکم انداز میں پھیلا ہُوا ہے۔ ایک تو یہ پورے عالم کیلئے توحید و سُنت کا گہوارہ اور ربّ کعبہ کی جانب سے محبتوں، فضیلتوں اور عقیدتوں کی سرزمین ہے اور دوسری بات یہ کہ اسکا انتظام و انصرام سنبھالنے میں خادمین الحرمین الشریفین بھی نفسیاتی، دینی، عمرانی اور اخلاقی اطوار میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تعصبات سے پاک یہ فرمانروا پورے عالم میں بگاڑ کی بجائے بناﺅ کو تراشنے کیلئے خارجی میدانوں میں شبانہ روز محنت کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک سعودی سلطنت کے داخلی معاملات کی بات ہے تو وہاں بھی خلقِ خدا کیلئے حقوق العباد کی راہیں ہموار ہیں، کُھلے دل اور کُھلے سینے کے ساتھ فراہمی انصاف اور عوامی حقوق کے حصول کی مثالیں روزِ روشن کی طرح ملیں گی۔ پھر تعلیمی میدان میں سعودیہ نے تعلیم و تربیت کو جہاں اپنے ملک میں بین الاقوامی معیار کیمطابق بنانے میں پچھلے دو عشروں میں کمال محنت کی ہے وہاں اسلامی ممالک تک بھی اپنی خدمت اور محبت کو وسعت دی ہے۔ سعودیہ نے نہ صرف بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا، سوڈان، اوڑس پڑوس کے ممالک اور ریاستوں ہی کو تعلیمی روشنی اور تعلیمی سوچوں سے منور نہیں کیا بلکہ پاکستان بھی بھرپور بلکہ سب سے زیادہ استفادہ کرنیوالے ممالک میں شامل ہے۔ جب کبھی پاکستان کے شہریوں کو کسی آفت کا سامنا ہُوا تو سعودیہ نے کندھے سے کندھا ملایا۔ پاکستان بھر میں تعلیمی و رفاہی ادارے، پھر بطورِ خاص زلزلہ 2005ءمیں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی تعمیر بھائی چارے کی منہ بولتی مثالیں ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اسلامک سنٹر اور اسی انداز کی دیگر کاوشیں سعودی فرمانرواﺅں کی ترجیحات کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں مقیم سعودی سفارت خانے کے سربراہ جو علمی، ادبی اور خارجہ امور کی سمجھ بوجھ میں ایک بین الاقوامی شخصیت ہیں وہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اپنی جگہ ایک پُل کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ چشم فلک گواہ ہے سعودی سفیر ڈاکٹر عبدالعزیز ابراہیم الغدیر کی پاکستان میں کئی سالہ خدمات ہر طرح کے تعصب سے پاک ہیں۔ پاکستان میں حکومتیں بدلیں، اداروں کے سربراہان بدلے، پھر سفیروں کی اسلام آباد کی بستی کے کئی باسی بدلے لیکن ڈاکٹر ابراہیم عبدالعزیز الغدیر کے رفاہی اور فلاحی خدمات کے جذبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ خدمت، اور بغیر کسی تعصب کے خدمت میں اس قدر مستقل مزاجی ڈاکٹر الغدیر کی انسان دوستی، علم دوستی، ادب دوستی اور اسلام دوستی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اسلام آباد کے حُسن و جمال کے دامن اور پاک سعودیہ محبت کے آسمان تلے بیٹھ کر ڈاکٹر الغدیر نے خارجی امور، حقوق العباد، انسان دوستی اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے کئی کتب تحریر کیں۔ ان کتابوں کا اردو اور انگریزی ترجمہ بھی شائع ہُوا۔ ملک بھر کی مختلف لائبریریوں اور تعلیمی اداروں تک یہ کُتب گئیں۔ ان کُتب پر بے شمار تبصرے بھی شائع ہوئے اور معاشرتی علوم کی جان کاری رکھنے والوں نے انہیں شاہکار قرار دیا۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ سعودی سفیر کی اہلیہ بھی خدمت میں ہر جگہ پیش پیش رہیں۔ سعودی فرمانرواﺅں یا سعودی خارجہ پالیسی کے ماہرین یا کارکنان سے سرِراہ ملاقت ہو، کوئی بزم ہو یا سیمینار، گویا ہر رسمی اور غیر رسمی تقریب میں یہ بات جھلکتی ہے کہ سعودیہ کے ہر سطح کے لوگ اسلامی برادری، عالمی برادری، انسانی برادری اور بالخصوص پاکستانی عوام کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہر پاکستانی حکمران کے دور میں سعودیہ نے پاکستان کی خدمت کی۔ سعودیہ تو خدمت اور سلامتی کا بحرِ بیکراں ہے، ذوالفقار علی بھٹو سے میاں نواز شریف تک نے ملک و قوم کیلئے اس سے بھرپور استفادہ کیا۔ کچھ حاسد لوگ، کچھ حاسد ممالک اور کچھ اسلام دشمن عناصر سعودی خدمت اور پاک سعودیہ دوستی کی وجہ سے بلاوجہ اور بلا ضرورت حسد کی آگ میں جلتے ہیں اور گفت و شنید میں غیر دانشمندانہ رویے کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ اسلام کے دوست ہیں نہ سعودیہ کے اور نہ پاکستان کے۔ حج کے عظیم موقع سے عام دنوں تک دن رات محبت اور خیر کا جذبہ رکھنے والے سعودیہ سے پوری دنیا استفادہ کرتی ہے اور پاکستانی خواص و عوام کیلئے بھی سعودی محبت کے دریچے دن رات کھلے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعصب سے باہر نکل کر تعلیم و تحقیق اور صحت کے حوالے سے سعودی سے امداد حاصل کریں۔ پاک سعودی مشترکہ پراجیکٹس سعودیہ اور پاکستان میں تعمیر کریں اور کروائیں، جس سے سائنس و ٹیکنالوجی، صحت، الیکٹرانکس اور تعمیرات کو فروغ ملے۔ عربی لٹریچر، قرآنی علوم اور اسلامی تحقیق اور تعلیمی نظم و نسق کو سمجھنے والے ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری (سربراہ جامعہ سرگودہا) ، وائس چانسلر اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد) ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش سمیت دیگر ماہرین بھی اداروں عربی علوم کی بہتری کیلئے ڈاکٹر الغدیر سے حرمین شریفین تک سے خیر و برکت سمیٹیں!
(نوٹ : مضمون نگار سعودی سفارتخانہ میں بطور میڈیا کوآرڈی نیٹر تعینات ہیں)