معاشرے میں پھیلی ہوئی بے حسی‘ حرص و ہوس اور عدم برداشت‘ آہستہ آہستہ اپنی انتہا¶ں کو چھو رہی ہے۔ جس سے پوری قوم اور خصوصاً ہماری آنے والی نسلیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ جس معاشرے میں تحمل و برداشت عفو و درگزر اور رحمدلی ناپید ہو جائے‘ وہ معاشرہ پتھر کہلاتا ہے گویا ہم اخلاقی طور پر بھی پتھر کے دور کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اس جملے میں ”بھی“ سے مراد یہ ہے کہ ہم صرف مادی وسائل اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے حوالے ہی سے زوال پذیر نہیں‘ اخلاقی طور پر بھی ہماری صورتحال ایسی ہی ہے۔ ہمارے خطے (برصغیر پاک و ہند) میں صوفیاءکر ام کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حضرت داتا گنج بخشؒ‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ بابا فرید الدین گنج شکرؒ اور دیگر بے شمار صوفیاءکرام نے اپنے کردار کی بدولت اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس خطے کے لوگوں کو انسانیت کا درس دیا اور ایسا معاشرہ تشکیل پایا جس میں امیر‘ غریب ان پڑھ اور عالم فاضل حتیٰ کہ مسلمان اور غیر مسلم کی تفریق بھی مٹ گئی۔ ہر شخص صرف اور صرف انسان ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کو نہ صرف برداشت کرتا بلکہ ایک دوسرے کی عزت و تکریم کرتا۔ نفرت‘ دشمنی اور کینہ پروری اس سنہرے دور میں ناپید ہو چکی تھی لیکن پھر وہ دور آیا کہ مذہب‘ فرقے‘ رنگ و نسل‘ قبیلے اور صوبائی اور لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قتل کیا جانے گا۔ آج ہم اسی ابتلا کے دور سے گزر رہے ہیں۔ آج ایک بار پھر صوفیاءکرام کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا ضروری ہو چکا ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں انسانیت کو لب سے پہلا درجہ حاصل ہے۔ قرآن پاک دنیا کی واحد کتاب ہے‘ جس کا عنوان ”انسان“ ہے۔ انسانیت کے موضوع پر قرآن پاک سے جامع کتاب دیگر آسمانی کتب میں بھی موجود نہیں اور آج اسی کتاب کے ماننے والے ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے۔ جابجا دہشت گردی اور قتل و غارت گری میں مصروف ہیں۔ بے گناہ انسانوں کا خون مذہب کا نام لے کر پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور کوئی ان کو روکنے والا نہیں۔ تمام حکومتیں‘ تمام دفاعی ادارے اس دہشت گردی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ ان دہشت گردوں پر قابو پانے کے لئے صرف طاقت کا استعمال ہی کافی نہیں‘ بلکہ ان کے زیر اثر تربیت پانے والی آئندہ نسل کو بھی بچانا ازحد ضروری ہے۔ قبائلی علاقوں کے سکولوں اور مدرسوں میں بلکہ شہری علاقوں کے سکولوں‘ مدرسوں اور کالجوں میں بھی تصوف کی ابتدائی تعلیم لازمی نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے بچوں کو ترک دنیا کی تعلیم دینا ہے‘ بلکہ تصوف کا وہ حصہ جس میں تحمل‘ برداشت‘ عفو و درگزر‘ پیار محبت‘ رحمدلی‘ انسانیت نوازی اور ادب و احترام کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس تعلیم کو معاشرے میں اور خصوصاً آنے والی نسل میں عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی تعلیم کی بدولت ہم اپنا اور قوم کا مستقبل محفوظ اور روشن بنا سکتے ہیں۔شمالی علاقوں کے بچوں کو یہ تعلیم دینا اس لئے بہت ضروری ہے کہ وہاں دہشت گرد تنظیموں کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ ایک تو وہاں حکومتی رٹ کا نفاذ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دوسرے یہ تعلیم جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ آج کل ان مدرسوں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے اسی کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ....
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدائے‘ لاالہ الاللہ