اسلام آباد (آئی این پی) پاکستان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز (پمز) کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا ہے کہ پاکستان بھر میں انجیو گرافی کی 150 مشینیں کام کررہی ہیں جن کے ذریعے ماہر ترین ڈاکٹرز امراض قلب میں مبتلا مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں‘ پاکستان میں صرف ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن کی سہولت موجود نہیں اس کے علاوہ تمام سہولیات موجود ہیں۔ اے ایف آئی سی کے ڈاکٹرز کی طرف سے خصوصی عدالت میں پیش کردہ میڈیکل رپورٹ اور سابق صدر مشرف کی طرف سے انجیو گرافی کے لئے بیرون ملک جانے کی خواہش پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ صرف انجیو گرافی کی بنیاد پر باہر جانے کی ضد کرنا سابق صدر کیلئے مناسب نہیں۔ نہ ہی حکام کو پرویز مشرف کو اس بنیاد پر باہر جانے کی زحمت اور تکلیف دینی چاہئے سابق صدر مشرف کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں پاکستان میں دل کے امراض کے علاج کا معیار عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے دل کے امراض کا کامیاب علاج پاکستان میں کیا جا چکا ہے۔ مریض کا اپنا حق ہوتا ہے کہ وہ جہاں سے دل کرے اپنا علاج کرائے تاہم سابق صدر مشرف کو بہادری کے ساتھ اپنے بنائے گئے ہسپتالوں پر اعتماد کرکے پاکستان میں مکمل علاج کرانا چاہئے۔ مشرف کی بیماری اس حد تک خطرناک نہیں ہے کہ دل اپنا کام چھوڑ دے، سابق صدر اپنے مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے بھی علاج جاری رکھ سکتے ہیں۔ ممتاز ماہر قانون سابق وفاقی وزیر قانون ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ کسی بھی شخص کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دینا عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے‘ ایسے معاملات میں قانون عدالت کی رہنمائی نہیں کرتا‘ ججز نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر بیماری واقعی ایسی نوعیت کی ہے کہ اس کا ملک میں علاج ممکن نہیں تو عدالتیں باہر جانے کی اجازت دے دیتی ہیں تاہم پھر بھی یہ عدالت کا ہی صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ معاملے کی سنگینی کے باوجود عدالت صوابدیدی اختیار کو استعمال کرکے اجازت نہیں دیتی تو پھر اس کا فیصلہ غیر انسانی قرار پاتا ہے۔ ای سی ایل میں نام ڈالنا یا نکالنا یہ حکومت کا کام ہے عدالتوں کا نہیں تاہم اگر کوئی ملزم عدالت کی مرضی کے بغیر ملک سے باہر جاتا ہے تو عدالت کو اس کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار حاصل ہے۔ اگر عدالت کسی ملزم کو علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتی تو یہ ملزم پر منحصر ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرتا ہے یا نہیں۔ تاہم عدالت کے صوابدیدی اختیار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔