اسلام آباد (نیٹ نیوز+ بی بی سی) فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں حالیہ دنوں میں محدود کارروائی اور ملک کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کی پے در پے وارداتوں کے بعد طالبان کیساتھ مذاکرات کرنے کی سرکاری پالیسی کے بارے میں نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنیوالے دنوں میں حکومت شاید زبانی طور پر تو مذاکرات کی کوششوں کا اعلان کرتی رہے لیکن عملاً طالبان کیساتھ مذاکرات کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا۔ طالبان کے مختلف علاقوں میں تابڑ توڑ حملوں کے بعد حکومت پر ان کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اسکے باوجود حکومت سرکاری طور پر اب تک مذاکرات ہی کو اوّلین ترجیح قرار دے رہی ہے۔ ملک کی اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان مشاورت اور اس سے پہلے میر علی میں بری اور فضائی افواج کی کارروائیاں پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہیں۔ بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مذاکراتی پالیسی کی طرح حکومت کی جانب سے سرجیکل یا ٹارگٹڈ آپریشنز کی پالیسی بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گی۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد کا کہنا ہے کہ محدود یا ہدف بنا کر فوجی کارروائی پاکستان اور طالبان کے تناظر میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دہشت گردی کے جواب میں ہونے والا فوجی حملہ کبھی فوجی حکمت عملی میں فائدہ نہیں دیتا۔ وقتی طور پر دشمن کو اس سے نقصان تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ شدت پسندی کو ختم کرنا ہے اور حکومتی رٹ بحال کرنی ہے تو اس کیلئے روایتی فوجی کارروائی ہی سودمند ہو سکتی ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ شدت پسند ان محدود فوجی کارروائیوں کے ڈر سے اپنی کارروائیاں ترک کر دیں گے یا ملک سے بھاگ جائیں گے تو ایسا ممکن نہیں۔ ’یہ تو خام خیالی ہے کہ ایک آدھ فوجی حملے سے ڈر کر دشمن سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ جائیگا۔ جو دشمن کے مقاصد ہیں اور ان کے مقاصد ہیں جو انھیں رقم فراہم کر رہے ہیں، ان سے یہ لوگ اتنی آسانی سے دستبردار ہوں گے اور نہ ہی اس طرح مذاکرات کی میز پر آئیں گے، یہ ممکن نہیں۔