لاہور (فرخ سعید خواجہ) وزیراعظم ڈاکٹر محمد نواز شریف نے طے کر لیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات یا آپریشن کا حتمی فیصلہ سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے اندر جماعتوں کے سربراہوں سے رابطوں کی ذمہ داری وفاقی وزرا کو سونپ دی ہے جو گذشتہ تین روز سے مختلف سیاسی رہنماؤں سے ٹیلیفونک رابطے کرکے ملاقات کا وقت مانگ رہے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اچھا رسپانس تاحال نہیں مل سکا تاہم قوی امکان ہے کہ چند روز میں وفاقی وزراء سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنما ملاقاتوں پر آمادہ ہو جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی ذمہ داروں کو اے پی سی کے حاصل کردہ مینڈیٹ کے مطابق طالبان سے مذاکرات میں تاخیر کا جواب دینا پڑ رہا ہے جس سے اپوزیشن رہنما مطمئن نہیں تاہم نئی اے پی سی ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دن بدن پاکستان کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں اور وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف برملا کہہ رہے ہیں کہ ملک حالت جنگ میں ہے۔ دونوں بھائیوں کا مؤقف ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو جماعتی سیاست سے بالاتر ہو کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے متحد ہونا پڑے گا۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن تصدیق کی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے ان سے تین روز قبل ٹیلیفون کرکے ملاقات کا وقت مانگا تھا۔ ذرائع کے مطابق سید منور حسن نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی حکومت کے کسی بھی ذمہ دار سے ملاقات کیلئے تیار ہے۔ نئی اے پی سی میں بھی بلایا گیا تو جائیگی کیونکہ یہ قومی معاملہ ہے لیکن حکمرانوں کو اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے 9 ستمبر کی اے پی سی کے فیصلے کے مطابق طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کئے۔ ذرائع کے مطابق چودھری نثار علی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی سے بھی رابطہ کیا ہے جبکہ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ذرائع کے مطابق اُن کی قیادت سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا ہے۔ حکومت مؤقف ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے عمل میں حکومت اور حکمران سنجیدہ تھے لیکن امریکی ڈرون حملے نے مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا۔ مسلم لیگ فنکشنل کے ذرائع نے بتایا کہ پیر صاحب پگارا سے ابھی رابطہ قائم نہیں کیا گیا لیکن مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ اے پی سی میں شرکت کی دعوت پر اس میں شریک ہوں گے۔