عزت ماب وزیراعظم صاحب اسے بھی پڑھیئے

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے دھرنے کے ختم ہونے کا فائدہ ایک طرف یہ ہوا ہے کہ اب حکومت کی طرف سے پٹرول کے شدید بحران کی وجہ عمران خان کا دھرنا نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو دھرنے میں شرکت سے روکنے کیلئے پٹرول پمپوں کی سیاسی بندش کر دی گئی ہے۔ 15 جنوری تا حال پٹرول کی قلت سے عوام جس طرح بے سدھ ہو کر رہ گئی ہے اس کی شاید ہی کوئی مثال ماضی میں موجود ہو عوامی حالت زار ذرا ملا خطہ فرمائیے کہ عوام عام کاروبار زندگی چھوڑ کر پمپوں پہ پٹرول کیلئے مارے مارے پھرتے رہے۔ مزید برآں پٹرول پمپوں پہ حصول پٹرول کیلئے گھنٹوں کھڑے رہنے کی صعوبت برادشت کرتے رہے۔ پبلک ٹرانسپورٹرز نے دوگنا کرائے بڑھا دیے۔ 74 روپے لیٹر والا پٹرول 200 روپے لیٹر بلیک میں بیچا گیا۔ عوام الناس کے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، دفاتر و عزیز رشتہ داروں کی طرف راہ کرنے کے امور تعطل کا شکار ہو گئے۔ بیماروں کیلئے ایمرجنسی ایمبولینس سروس بند ہو گئی۔ عام دکانداروں کو عوامی اشیاء ضروریہ کی سپلائی رک گئی۔ یوں پچھلے ہفتے معمولات زندگی کے متاثر ہونے سے عوامی سطح پر ذہنی کوفت ٹھانے سے حکومت کیخلاف اضطراب رہا۔ حکومت جس کا انتخابی مینڈیٹ عوام کو توانائی بحران سے نکالنا تھا وہ حالیہ پٹرول بحران کے آگے بے بس نظر آرہی تھی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایسی صورتحال پہ ناراضگی کا اظہار سیکرٹری پٹرولیم سمیت دیگر تین اعلیٰ سرکاری افسران کو معطل کر کے کیا۔ پٹرول کی درآمد کا مینجمنٹ آف کنٹری سپلائی کے تمام عمل میں وزارت خزانہ، وزارت پٹرولیم و اوگرا ونجی کمپنیاں بھی چونکہ شامل ہوتی ہیں اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پٹرول بحران سارا نزلہ صرف بیوروکریٹس ہی پر آخر کیوں گرا؟ خبر ہے کہ اوگرا کی سطح پر گڑ بڑ ہوئی اور 154 تیل درآمد کرنے والی نجی کمپنیوں کی انتظامیہ اس عوامی تکلیف کی صورتگیر تھی۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ سرکاری اداروں پہ پی ایس او کے 200 ارب روپے کی رقم واجب الادا ہونے کے باعث عوام کو ایسے دن دیکھنا پڑے ایک خیال یہ بھی ہے کہ کچھ مہربان لوگوں کا مافیا جو آئل سپلائی سے متعلق ہے نے پٹرول کی قیمتوں میں بتدریج کمی کے باعث ذخیرہ اندوزی کا حربہ اختیار کیا اور مصنوعی بحران پیدا کیا۔ جب پٹرول کی قلت سے 190 پمپ بند ہو گئے تو بلیک میں 200 تا 300 روپے تک پٹرول مہنگا ہو گیا ذرائع نے بتایا ہے کہ پی ایس او نے معمول کی ڈیمانڈ کے مطابق تیل کے تین جہازوں کا سودا کیا جو عدم ادائیگی کا شکار ہو کر منسوخ ہو گیا جس سے پٹرول کی قلت پیدا ہوگئی وزارت پٹرولیم و پی ایس او حکام کی جانب سے تیل کے سودے کی منسوخی کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا اور یہ غیر سنجیدہ رویہ عوامی اذیت کا باعث بنا۔قارئین کرام ملک میں جو کربناک جنگ اس وقت دہشتگردی کیخلاف جاری ہے اور جو سیاسی و اقتصادی نا گفتہ بہ حالات سے ہم دو چار ہو چکے ہیں ایسے میں عوام کا بحران در بحران کا شکار ہونا سالمیت وطن و بقائے امن کیلئے بہت خطرناک ہے۔ ملکی توانائی بحرانوں کی وجہ کوئی بھی ہو، گیس، پانی، بجلی و پٹرول کی عدم دستیابی کی کوفت اٹھانے والی ٹیکسز و بلز ادا کرنیوالی عام عوام کا ہاتھ قدرتی طور پر حکومتی گریبان پر ہی آتا ہے۔ جناب نواز شریف بھلے ہی اپنی عوام کے ساتھ مخلص اور اپنے مینڈیٹ کے حوالے سے نیک نیت ہیں ٹیم کا کیا اچھے اچھے لیڈروں کو عوم کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے پٹرول کے بحران سے عوام کی جو درگت آپکی حکومت میں بن گئی ہے اس کا گلہ بھی عوام آپ ہی سے کریگی۔ آپ جیسا کوئی بھی لیڈر یہ نہیں چاہے گا کہ اسکی کارکردگی سوالیہ نشان بنے اور مخالفین کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے پی ٹی آئی والوں نے تو بیان داغ دیا کہ ’’اگر دھرنا ہوتا تو پٹرول کا یہ بحران کبھی نہ ہوتا‘‘۔ اس سے پہلے کہ مسائل کے حل کیلئے دھرنوں پہ عوام کا یقین واثق ہو جائے بہتر یہی ہوگا کہ توانائی بحرانوں کا سلسلہ یہیں ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی کوئی مستقل منصوبہ بندی کر لی جائے۔ سب سے پہلا قدم تو حکومتی و سرکاری عہدوں پر سفارش، قرابت داری و پسندیدگی کے کلچر کی بجائے ذہانت، صلاحیت، محنت سے لگن و اخلاص رکھنے والوں کی ’’قدر‘‘ کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ اس وقت افراط زر میں کمی یعنی اشیاء کی ڈیمانڈ موجود اور سپلائی غائب، پیسہ موجود اور اشیاء (میٹریل) غائب کی صورتحال ملکی سالمیت کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ یہ ہی خدانخواستہ قوموں، نسلوں اور ملکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی جڑیں ہیں تو اب ایسے میں رشتے و قرابت داری ٹوٹے لیکن ملک نہ ٹوٹے۔ آپکے پسندیدہ ساتھی ناراض ہوں لیکن خلق خدا عوام ناراض نہ ہو کر جن کا آپکو مسیحا چن لیا گیا ہے حکومت کیخلاف سازشیوں کو نہ ڈھونڈیں بلکہ ملکی سالمیت و بقا امن کے بیریوں کا پردہ چاک کریں۔ اب غیر ملکی و ملکی نجی مافیا کی ملی بھگت سے پی ایس او کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کون دل جلا ہے جو پاکستان جیسے پیارے وطن کو ناکام ریاست ڈکلیئر کرانا چاہتا ہے؟ پٹرول کی قیمتوںسے جو کریڈٹ آپ کو ملنا چاہیئے تھا وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب وہ ڈس کریڈٹ میں کیوں بدل گیا؟ جناب عالی آپ نے فرمایا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات و پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عام آدمی کو پہنچیں گے مگر یہ کیا عوام کا حال تو ’’مرے کو سو درے‘‘ والا ہوگیا۔

ای پیپر دی نیشن