ڈھاکہ تشریف لاکر21مارچ 1948ء کو قائداعظم نے جلسہ عام سے خطاب فرمایا۔ انہوں نے فرمایا۔ ’’میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ آپکی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے بالآخر اس صوبے کے لوگوں ہی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہوگی۔ لیکن یہ۔۔۔ آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردواور صرف اردو ہوگی اردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں ہوگی جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی کام کرسکتی ہے دوسرے ملکوں کی تاریخ ڈھاکہ کو دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہوگی‘‘
24مارچ 1948کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں جلسہ تقسیم اسناد کے مدقع پر خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے پھر فرمایا تھا، ’’اس صوبے میں دفتری استعمال کیلئے اس صوبے کے لوگ جو زبان بھی چاہیں منتخب کرسکتے ہیں یہ مسلہ خالصاً صرف اس صوبے کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل ہوگا البتہ پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اردو ہے۔ اردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں‘‘
اس تقریر میں انہوں نے اردو کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ : ’’اردو وہ زبان ہے جسے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے پرورش کیا ہے اسے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھاجاتا ہے یہ وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے اور دوسرے اسلامی مللکوں کی زبانوں سے قریب ترین ہے۔ یہ بات بھی اردو کے حق میں جاتی ہے اور یہ بہت اہم بات ہے کہ بھارت نے اردو کو دیس نکالا دے دیا ہے حتیٰ کہ اردو رسم الخط کو ممنوع قرار دے دیا ہے‘‘ (’’تحریک نفاذ اردو‘‘ص49)
(ج) خواجہ ناظم الدین
گورنر جنرل پاکستان خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا نے اپریل 1951ء میں انجہن ترقی، اردو پاکستان کی طرف سے کراچی میں ہونیوالی اردو کانفرنس کے افتتاحی خطاب میں کہا تھا۔
1۔سردار عبدالرب نشتر:
کراچی کی مذکورہ کانفرنس میں سردار عبدالرب نشتر نے فرمایا تھا،کے تعجب بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ قیام پاکستان کے ساڑھے تین سال بعد اس امر کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا جائے۔ گو رسمی طور پر مجلس دستور ساز میں یہ فیصلہ نہ ہوا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے مگر واقعاتی اور تاریخی نقطہ نگاہ سے یہ حیثیت اردو ہی کو حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی قومی زبان ہے۔ (تحریک نفاذ اردو، 62)
آج بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ درپیش ہے۔ گو 1973ء کے آئین میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا اور اسکے عملی نفاذ کیلئے 15سال کی مدت مقرر کی گئی لیکن یہ مدت ختم ہوتے ہی کم و بیش 25 برس ہوگئے ہیں لیکن اب بھی اسکا مطالبہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اس کیلئے کانفرسیس کرنا پڑ رہی ہیں جن کی نوبت تو بعقول جناب عبدالعلی آنی ہی نہیں چاہئے تھی۔
2۔ اردو کے نفاذ کا آئینی عہد
14 اگست 1973ء سے نافذ ہونے والے متفقہ آئین کی شق 251 کچھ اس طرح ہے:۔
1۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ اس سرکاری او دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے آئین کے نفاذ سے پندرہ سال کے اندر انتظامات کئے جائینگے۔
2۔ پہلی شق کے مطابق اردو کو انگریزی زبان کی جگہ لینے کا انتظام کرنے تک انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔
3۔ قومی زبان کے (مذکورہ بالا) منصب کو کسی قسم کا گزند پہنچائے بغیر ایک صوبائی اسمبلی کو حق حاصل ہوگا کہ وہ قومی زبان کیساتھ ساتھ صوبائی زبان کی ترقی، استعمال اور تعلیم کیلئے مناسب قوانین بنا سکے۔ (آئین پاکستان 1973ء از صفدر محمود 147-148 تحریک نفاذ اردو 115)
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ملک کے تمام طبقات، مکاتیب فکر اور علاقوں کے متفقہ دستور کے تقاضے کو کس طرح نظر انداز کیا گیا ہے کہ آج ربع صدی گزر جانے کے بعد بھی اس آئینی عہد کو ایفا نہیں کیا گیا۔ بلکہ بقول عبدالعلی اسے مسئلہ کشمیر بنا دیا گیا۔ جس طرح ہندوستان مسئلہ کشمیر کو لٹکائے رکھنے کے لئے تاخیری حربوں سے کام لیتی رہی ہیں کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایسا اہم آئینی تقاضا کہ جس سے قوم کی عزت و وقار اور ترقی و سربلندی وابستہ ہے اسے انتہائی سنگدلی سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہی اداروں کی جانب سے جو اس آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
3 ۔ قیام پاکستان میں اردو کا کردار
قیام پاکستان کا اصل جذبہ و محرکہ تو اسلام تھا۔ برصغیر کے ہر خطے کے مسلمانوں کا ایک ہی نعرہ تھا کہ، پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہ الا اللہ۔ پھر اس تحریک کے رہنمائوں نے مسلمانوں سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جو اسلام میں تجربہ گاہ ہوگا جہاں اسلام کا نظام عدل و انصاف قائم کیا جائیگا۔ ظاہر ہے مسلمان اگر دوسری قوموں سے مختلف و ممتاز ہیں تو صرف اپنے اسلامی عقائد اور تہذیب و تمدن ہی کی وجہ سے ہیں۔ اسلام کیساتھ اردو زبان کا بھی تحریک پاکستان میں بہت اہم کردار ہے۔ اردو کو برصغیر کے مسلمانوں ہی کی زبان تصور کیا جاتا تھا کیونکہ اسکے خمیر میں جہاں مسلمانوں کی زبانوں، عربی، فارسی اور ترکی کے الفاظ شامل ہیں وہاں انکا تہذیبی عکس بھی نظر آتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ اردو کے لفظ میں گزشتہ مسلم تہذیب و اقتدار کا نقش موجود تھا یہ عربی فارسی ترکی سے مخلوط فی بین الاقوامی مسلم تہذیب کے اشارے اس میں پائے جاتے تھے۔ برصغیر کے ہندو اسے مسلمانوں کی اور قرآن کے حروف میں لکھی ہوئی زبان قرار دیتے تھے انہیں مسلمانوں کے تہذیبی اثرات رکھنے والی یہ زبان پسند نہ تھی۔ مسلمانوں اور ہندوں کی آپس میں دشمنی میں اس زبان کا بھی بہت دخل تھا۔