Nomination کا قائدہ پہلے گورنر پنجاب مسٹر موڈی نے ختم کر دیا تھا اور آفتاب احمد خاں مرحوم آخری مجسٹریٹ تھے وہ Nomination ہوئے تھے۔ اب یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہائی کورٹ کے ذریعہ Nomination کا طریقہ ختم ہونا چاہیے۔ یہ وکلاءمجسٹریٹ کی بھرتی بند ہونی چاہیے خواہ کوئی وکیل ہو یا Ordinary گریجوایٹ ہو مقابلہ کے امتحان کے بعد بھرتی ہونا چاہیے۔ جتنی آسامیاں اب وکیل مجسٹریٹوں کی سینکڑوں کی تعداد میں لی جاتی ہیں اتنی تو چپڑاسی بھرتی کرنے کی بھی آسامیاں نہیں ہوتیں۔ اب ڈیپارٹمنٹل امتحان بھی نہیں ہوتے۔ ہائی کورٹ ججز صاحبان سے بھی استدعا ہے کہ یہ سول جج مجسٹریٹ کا نظام فیل ہو چکا ہے اسے پہلے نظام میں ہی بدلنا ملک کی سالمیت اور حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے ضروری ہے۔ جو ضابطہ فوجداری، پاکستان پینل کوڈ میں جنرل نقوی نے ترامیم کرائی تھیں سب منسوخ ہونی چاہئیں۔ حال ہی میں جو واقعات ہوئے ہیں؛ ماڈل ٹاﺅن میں جو فائرنگ ڈائریکٹ پولیس نے کی اور درجنوں لوگ شہید ہوئے اگر پہلا قانون ہوتا جس کے ذریعہ پولیس کو لوگوں پر گولی چلانے کا اختیار نہیں تھا صرف مجسٹریٹ ہی گولی چلانے کی اجازت دے سکتا تھا، کوئی بھی مجسٹریٹ ڈائریکٹ لوگوں پر گولی چلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ گفت و شنید سے مسئلہ حل کرتا۔ پولیس کی وردی اشتعال کا باعث ہوتی ہے۔ مجسٹریٹ ہی گفت و شنید کے ذریعہ مسئلے حل کر سکتا ہے۔
ضابطہ فوجداری کی دفعہ 103 کے مطابق کسی کے گھر داخل ہونے کی اجازت مجسٹریٹ سے سرچ وارنٹ لئے بغیر نہیں ہو سکتی تھی جو اب ترمیم کر کے اختیارات پولیس کو دیئے گئے ہیں۔ ایک جماعت کے لیڈروں کے گھروں میں گھس کر پولیٹیکل ورکر کو گرفتار کیا گیا جس کی بازگشت اسمبلیوں میں بھی سنی گئی۔ 12 مئی کے واقعے میں جسٹس افتخار کو کراچی میں داخل نہ ہونے دینے کی وجہ سے پولیس اور مقامی پارٹی کے ورکروں نے گولیاں چلا کر درجنوں افراد کوشہید کیا ایسا ظلم کرنے کی اجازت جنرل نقوی کی فوجداری ضابطہ میں ترمیم کا ہی نتیجہ تھا ورنہ درجنوں جانوں کا ضیاع نہ ہوتا۔ڈپٹی کمشنر ضلع میں حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ہر واقعہ کے بعد انسداد کی تجاویز کرنا ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ موجودہ سسٹم میں کسی کی ذمہ داری نہیں۔
سیاستدان ہمیشہ اپنی پارٹی کا نقطہ نظر سامنے رکھتے ہیں لیکن ڈپٹی کمشنر پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ملکی بہتری کیلئے انجام دہی کرے۔ قائداعظم نے بھی اپنی تقریریں جو پشاور، کراچی میں کیں ان میں یہی کہا کہ سیاستدان زیادتیاں کرتے ہیں لیکن آفیسر کو حوصلہ سے کام لینا چاہیے اور انصاف کا بول بالا کرنا چاہیے۔ قائداعظم نے بھی اپنی تقریروں میں وعدہ کیا تھا کہ ان کو آئینی تحفظ دیا جائے گا تاکہ وہ سیاستدانوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہیں۔ مجھے یاد ہے جسٹس شفیع الرحمان ڈپٹی کمشنر بہاولپور تھے ان کی حسن محمود وزیر بلدیات نے سنٹرل منسٹر سے شکایت کی کہ وہ مسلم لیگ کا خیال نہیں کرتے جب سنٹرل منسٹر نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ مسلم لیگ کا خیال نہیں کرتے تو انہوں نے منسٹر کو جواب دیا کہ وہ کسی پارٹی کے نمائندہ نہیں ہیں۔ اگر کوئی لاءاینڈ آرڈر کی بات ہے تو ان سے کی جائے۔ اس طرح ملک فیروز خان نون پرائم منسٹر تھے، انہوں نے مسعود محمود کو S.P سرگودھا لگایا اور بعد میں ٹیلیفون کیا کہ انہوں نے سرگودھا سے الیکشن MNA کا لڑنا ہے۔ فضاءاس کے حق میں کی جائے تو مسعود محمود S.P نے انکار کر دیا اورکہا کہ لاءاینڈ آرڈر کی بات کریں، الیکشن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی کے دادا نے ڈپٹی کمشنر کی ممتاز دولتانہ کو شکایت کی تو ڈپٹی کمشنر ملتان نے جواب دیا کہ سر ان کا پولیٹیکل معاملات سے کوئی تعلق نہیں اگر کوئی لاءاینڈ آرڈر کی بات ہے تو بتائیے۔ چودھری نذیر وڑائچ کو مسٹر دولتانہ چیف منسٹر نے سرگودھا لگایا تو انہوں نے چارج لینے سے پہلے سعید قریشی جو مسٹر دولتانہ کے بہنوئی تھے کو بلایا اور کہا کہ جب تک وہ S.P سرگودھا ہیں کسی قسم کی غیرقانونی کارروائی وہ نہیں کرنے دیں گے اگر منظور ہے تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے تبدیل کرا دیں۔
جب آئینی پروٹیکشن ہو تو آفیسر لاءبھی آزادی کے ساتھ کام کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں سیاستدان جن کا کام قانون بنانا ہے وہ قانون بنانے کے بجائے ہر کام غلط سلط کروانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے گورنمنٹ کی رٹ قائم نہیں رہی ہے۔ اگر ملک کو صحیح سمت چلانا ہے تو لوکل باڈیز ایکٹ 2001ءکو لوکل باڈی ایکٹ 1979ءمیں تبدیل کریں۔ پولیس ایکٹ 2001ءکو منسوخ کر کے 1860ءپولیس ایکٹ رائج کریں جو ترامیم آئین 1973ءمیں کی گئی ہیں ان کو منسوخ کر کے پوزیشن پر لائیں۔ ضابطہ فوجداری نے CSPC اور PPC میں جو ترامیم جنرل نقوی نے کروائی ہیں ان سب کو منسوخ کر کے اس میں پوزیشن لائیں۔ جناب خادم اعلیٰ صاحب نام داروغہ رکھنے سے فرق نہیں پڑے گا، سابقہ اختیارات بھی دیں تاکہ آپ کا لاءاینڈ آرڈر درست ہو سکے اور حکومت کی رٹ بھی قائم ہو۔
چپ ہوں تو کلیجہ جلتا ہے
بولوں تو بڑی رسوائی ہے
........................ (ختم شد)